آمین بالجہر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:2001
السلام علیکم براہ کرم آمین بالجہر کا مسئلہ تفصیل سے حل کر دیں۔ اس کے جواز اور عدم جواز کو دلائل سے ثابت کر دیں۔ اس کے جواز پر تو دلائل مل جاتے ہیں اس کے منع پر دلائل نہیں مل رہے اور اگر کوئی ویڈیو کا لنک ہو تو وہ بھی دے دیں۔ شکریہ

  • سائل: محمد آصفمقام: فیصل آباد، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 29 اگست 2012ء

زمرہ: آمین بالجہر (اونچی آواز میں آمین کہنا)

جواب:

آمین کا معنی علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں یہ وہ کلمہ ہے جو دعا کے بعد کہا جاتا ہے یہ اسم اور فعل سے مرکب ہے اور آمین کا معنی ہے اللھم استجب لی۔ اے اللہ میری دعا قبول فرما:

نماز میں آہستہ آواز سے آمین کہنا احادیث سے ثابت ہے جو درج ذیل ہیں۔

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب امام (غیر المغضوب علیہم ولا الضالین) کہے تو تم کہو "آمین" جس کا کہنا فرشتوں کے کہنے سے موافق ہو گیا تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

صحيح بخاری : کتاب صفة الصلوة، باب جهر الماموم بالتامين 1 / 271 حديث نمبر 749

صحيح مسلم : کتاب الصلاة، باب التسميع والتحميه والتامين 1 / 3-7 حديث نمبر 410

2۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھا تو کہا آمین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آمین کی آواز کو پست کیا۔

سنن الترمذی 1 / 289 حديث نمبر 248

احمد بن حنبل فی المسند 4 / 316

الحاکم فی المستدرک 2 / 253 حديث نمبر 2913

3۔ حضرت ابو وائل سے مروی ہے کہ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تسمیہ، تعوذ اور تامین (آمین) بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔

المعجم الکبير 9 / 263 حديث نمبر 9304

4۔ حضرت ابراہیم نخفی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں پانچ چیزوں میں اخفاء کیا جائیگا ثناء، تعوذ، تسمیہ، تامین (آمین) اور تحمیہ۔

اخرجه عبد الرزاق فی المصنف : 2 / 87 حديث نمبر 2597

مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب
المنہاج السوی من الحدیث النبوی
(بلند آواز سے آمین نہ کہنے کا بیان)
کا مطالعہ کریں

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری