کیا حالت مجبوری میں‌ سود پر قرض لینا جائز ہے؟


سوال نمبر:1971
قرآن مجید میں سود لینے سے منع کیا گیا ہے تاہم سود پر قرض لینے کے متعلق کچھ نہیں‌ بتایا گیا۔ میں‌ اپنے مالی حالات کی بہتری کےلئے کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے کسی دوست یا عزیز یا کسی این جی او یا رفاعی ادارہ سے مطلوبہ مقدار میں‌ قرض یا قرض حسنہ دستیاب نہیں، صرف بنک سے سود پر قرض لینے کا ہی راستہ موجود ہے۔ ایسی صورت میں‌ کیا سود پر قرضہ لیا جا سکتا ہے؟ میں‌ 14 سال سے رات کی ملازمت کر رہا ہوں، ملازمت کا مقام گھر سے 40 کلو میٹر دور ہے، ادھیڑ عمری کے باعث اتنا فاصلہ طے کرنا اب محال ہو گیا ہے، تنخواہ بھی کبھی اتنی نہیں‌ ہوئی کہ بچت کا سوچ سکوں۔ گھر کی چار دیواری ہے نہ دروازے اور کھڑکیاں۔ اولاد ہے نہ اس ضمن میں‌ بیوی کا علاج کرانے کو رقم۔ والدہ بھی شوگر، بلڈ پریشر جیسے امراض‌ کا طویل عرصہ سے شکار ہیں۔ چھوٹا بھائی 30 سال کا ہو چکا مگر اس کی شادی کا سوچا بھی نہیں‌ جا سکتا۔ وقتآ فوقتآ عزیزوں‌ سے لیا گیا قرض 4 لاکھ سے تجاوز کر چکا ہے۔ میری، چھوٹے بھائی کی تنخواہ، والدہ کی پنشن ملا کر اتنے پیسے بنتے ہیں کہ کھانے کے اخراجات کے بعد ہم چند ہزار روپے قرض اتار سکتے ہیں یا گھر کے مکینوں‌ کے تخفظ کے لئے کوئی چھوٹا موٹا کام۔ اس لئے ذہن میں‌ آیا کہ کوئی کاروبار کیا جائے لیکن اس کے لئے رقم بنک کے سوا کہیں‌ سے دستیاب نہیں۔

  • سائل: سہیل عتیق راوتمقام: لاہور، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 05 اکتوبر 2012ء

زمرہ: سود

جواب:

سود پر لینا دینا ہر امیر غریب مسلمان کے لیے حرام ہے۔ اس لیے آپ بنک سے قرض لینے کے بجائے کسی سرمایہ دار کا سرمایہ اور اپنی خدمات دے کر اس کاروبار کا آغاز کر لیں اپنی محنت کی اجرت لیتے رہیں یا پھر اپنے طور پر کوئی چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کر لیں۔ آہستہ آہستہ اس کو وسعت دے لیں۔

مزید وضاحت کے لیے درج ذیل عنوانات پر کلک کریں۔

  1. کیا سود لینا جائز ہے؟
  2. کیا سود کے پیسے غریبوں میں تقسیم کرنا جائز ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری