کیا تصوف بدعت ہے؟


سوال نمبر:188
کیا تصوف بدعت ہے؟

  • تاریخ اشاعت: 21 جنوری 2011ء

زمرہ: روحانیات  |  روحانیات

جواب:

تصوف کو بدعت کہنا سراسر غلط، بے بنیاد، کم فہمی اور سطحی علم کا نتیجہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تصوف اوائل اسلام ہی سے اسلامی معاشرے کا لازمی جزو ہے۔ یہ اسلام میں کوئی درآمد شدہ اضافہ یا بدعت نہیں ہے۔ اگرچہ لفظ تصوف یا صوفی عام طور پر پہلی صدی ہجری کے آخری دور میں یا دوسری صدی ہجری کے ابتدائی دور میں زاہدوں کے لئے مستعمل ہوا اور رفتہ رفتہ تصوف نے ایک مستقل معاشرتی تحریک کا روپ دھار لیا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس سے پہلے تصوف و سلوک کا سرے سے وجود ہی نہ تھا۔ تصوف کسی رسم کا نام نہیں بلکہ یہ تو ایک رویہ ہے۔ محبت الٰہی، اتباع سنت اور حسن اخلاق اس کے عناصر ہیں۔ حسن عبادت اور خدمت خلق اس کا راستہ، ذکر و فکر، تقویٰ و طہارت اور خلوت و مجاہدہ اس کے ذرائع ہیں۔ اخلاص اس کا معیار اور رضائے الٰہی اس کی غایت ہے، یہ کہنا غلط اور بے بنیاد ہے کہ تصوف کے یہ عناصر و اجزا، وسائل و ذرائع اور مظاہر و غایات دور نبوت اور عہد صحابہ میں عملاً موجود نہ تھے۔ یہ سب قرآن و سنت کے احکام اور دین کی ابدی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ اسلام ہی تصوف کا مبداء اور منتہا ہے۔ تصوف کا سرچشمہ قرآن و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ تصوف قرآن و سنت کا لب لباب اور روح دین ہے۔ تصوف کی دعوت اسلام کی دعوت ہے۔ اس کا فروغ اسلام کا فروغ ہے، اس لیے یہ بدعت نہیں بلکہ عین اسلام ہے اور روح اسلام ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔