کیا شدید تکلیف میں مبتلا لاعلاج مریض موت کا انجیکشن لگوا سکتا ہے؟


سوال نمبر:1840
اگر کوئی شدید بیمار ہو اور ڈاکٹرز علاج کرنے سے قاصر ہوں، جیسے ایڈز یا کینسر وغیرہ تو کیا ایسی شدید تکلیف کی حالت میں مرنے کے لیے انجیکشن (Death Injection) لگوانا جائز ہے؟ براہ مہربانی وضاحت کے ساتھ اس کا جواب دیں۔ شکریہ

  • سائل: مستقیم چوہدریمقام: دبئی، متحدہ عرب امارات
  • تاریخ اشاعت: 10 جون 2012ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل

جواب:

اسلام کا تصور یہ ہے کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے کائنات کی کسی شے کا یہاں تک کہ خود اپنا مالک بھی نہیں ہے۔ اس لیے جس طرح اس کے لیے یہ درست نہیں وہ کسی دوسرے کی زندگی کے در پہ ہو اور اسے ہلاک کر دے یا اس کے جسم کو جزوی نقصان پہنچائے۔ اسی طرح یہ بات بھی روا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاک کر لے اور کسی شرعی مصلحت کے بغیر اپنے جسم کے کسی حصہ کو ضرر پہنچائے۔ اس کا جسم اس کے ہاتھوں میں اللہ تعالی کی امانت ہے جسکی حفاظت اس کا فریضہ ہے اور جس کا استعمال اس کو حکم خداوندی کے مطابق کرنے کی اجازت ہے، مگر اس نوعیت کا تصرف کسی اور پر جائز نہیں ہے۔ یہ طرز فکر بجائے خود اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ایسی مہلک دواؤں اور انجکشن کا استعمال جائز نہ ہو گا۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیا تو وہ دوزخ میں بھی ہمیشہ اسی طرح اپنے آپ کو گراتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر اپنی جان دی تو وہ دوزخ میں بھی اسی طرح پیتا رہے گا اور جس نے کسی دھار دار ہتھار سے خودکشی کی تو دوزح میں بھی خود اپنے ہاتھ سے اپنے پیٹ پر وار کرتا رہے گا۔

بخاری، ج: 1 ص: 182 باب، ماجاء فی قاتل النفس

اس حدیث پاک سے ثابت ہواکہ چاہے قتل کے لیے کسی آلہ کا استعمال کیا جائے یا کسی مشروب کا۔ ہر ایک  خود کشی کے زمرہ میں آئیگا، اسی طرح انجکشن ،  ادویات اور  مشروب زہر میں شمار ہوں گی اور حرام ہونگی۔

حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے کی قوموں میں ایک شخص کو زخم تھا۔ وہ شدت تکلیف سے گھبرا گیا۔ پھر چھری لے کر اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا اور خون تھم نہ سکا یہاں تک کہ موت آ گئی۔ اللہ تعالی نے فرمایا میرے بندے نے اپنی ذات کے معاملہ میں میرے فیصلے پر سبقت کی۔

خود عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کے ایک آدمی کے ساتھ ہجرت کی وہ شخص بیمار پڑ گیا اور شدت تکلیف سے گھبرا کر چاقو سے انگلیوں کے پورے کاٹ ڈالے ان کے ہاتھ سے بے تحاشہ خون بہنے لگا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی، حضرت طفیل نے ان کو خواب میں اچھی حالت میں دیکھا۔ البتہ ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان سے پوچھا اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے۔ تو جواب دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کرنے کے طفیل مغفرت کر دی۔ پر ہاتھ اس لیے ڈھکے ہوئے ہیں کہ مجھے کہا گیا کہ ہم اس چیز کو درست نہیں کرتے جسے تم نے خود بگاڑ دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیماریوں کا علاج کروایا کرو۔ بڑھاپے کے علاوہ ساری بیماریاں وہ ہیں جن کا علاج اللہ تعالی نے پیدا فرما دیا ہے۔

ترمذی، جلد : 2 باب: ما جاء فی الدواء والحث عليه

لہذا لاعلاج بیماری یا شدت تکلیف کی وجہ سے انجکشن لگوا کر موت قبول کرنا خود کشی کے زمرے میں ہے اور یہ حرام ہے۔ خودکشی کرنے سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ

(النساء، 4 : 29)

اور اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔

لہذا کسی بھی صورت میں اگر انسان نے خود اپنی جان لی، کسی بھی ذریعے سے اور کسی بھی حال میں۔ شدت تکلیف کی حالت میں ہو یا لا علاج مرض کی حالت میں انجکشن کے ذریعے اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے یا زہر پی کر یا گولی مار کر۔ یہ خود کشی ہے اور خود کشی حرام ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری