کیا غیر اسلامی ممالک میں رہنا دین سے دوری کی علامت ہے؟


سوال نمبر:1821
سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان کا کسی مسلم ملک کو چھوڑ کر غیر مسلم معاشرے میں آباد ہونے کی شرعی حیثیت کیا ہے، ہجرت کیا ہے ، کن مقاصد کے لئے جائز ہے، کیا صرف معاشی آسودگی کے لیے دینی اور سماجی اقدار کی قربانی دی جا سکتی ہے جو لوگ معاشی آسودگی، روزگار، زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات کی دستیابی کے پیش نظر غیر مسلم ممالک میں آباد ہیں۔ کیا ان کا یہاں رہنا شرعی طور پر درست ہے۔ بہت سے لوگوں سے ملاقات کا موقع ملتا ہے جو آخری عمر میں سخت پریشان بلکہ مایوسی اور ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ہم نے اپنی نسلوں کو کفرستان میں آباد کر کے مادی آسانی تو فراہم کی مگر دین سے بہت دور کر دیا۔ کیا ان کا یہ عمل شرعی طور پر قابل گرفت ہے کہ انہوں نے قصدا اپنی نسلوں کو یہاں آباد کیا۔

  • سائل: محمد ندیم یونسمقام: اوڈنسے ڈنمارک
  • تاریخ اشاعت: 10 جون 2012ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

1۔ ایک مسلمان کا کسی مسلم ملک کو چھوڑ کر غیر مسلم معاشرے میں آباد ہونا شرعا جائز ہے۔

انما الاعمال بالنيات وانما لکل امرء ما نوی اس حدیث کی روشنی میں ہجرت کا مفہوم بڑا وسیع ہے، انسان کسی بھی غرض و غایت کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کر سکتا ہے۔ ہجرت اگر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے کی جائے تو دنیا و آخرت میں اجرو ثواب ہے۔ اس کے علاوہ معاشی آسودگی، روزگار اور دیگر سہولیات کے لیے ہجرت کرنا جائز ہے۔ وانما لکل امرء ما نوی انسان جس غرض و غایت کے لیے ہجرت کرے گا وہ مقاصد اس کو مل جائیں گے اور اس کا معاملہ اس کی نیت کے ساتھ ہے ۔ گویا انسان ہجرت کسی بھی مقصد کے لیے کر سکتا ہے البتہ اس کا اجر و ثواب اس کی نیت کے ساتھ معلق ہے۔

وہ لوگ جنہوں نے اپنی فیفلیز بیرون ملک سیٹل کی ہوئی ہیں ان کے اس عمل میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔ جہان انسان کو تحفظ ملے وہاں رہ سکتا ہے۔ اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی نسلوں کو باہر سیٹل کروا کہ بہت بڑی غلطی کی ہے اور اپنے اس عمل پر پچھتا رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا اچھا بندوبست نہیں کیا۔ سیٹل کرنے کی وجہ سے یہ لوگ قابل گرفت نہیں ہوں گے۔ جو لوگ بگڑتے ہیں وہ کسی بھی جگہ بگڑ سکتے ہیں ۔ گو ماحول کا بھی بہت اثر پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے تو لوگوں کو پچھتاوا نہ ہو۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک بھی ہیں۔ کیا وہاں لوگوں کی اولادیں خراب نہیں ہوئی؟ کیا ان ملکوں میں گناہ نہیں ہوتے؟ اصل چیز تعلیم و تربیت کا ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے۔ بیرون ملک بھی منہاج القرآن کے اسلامک سینٹرز موجود ہیں اس کے علاوہ اور بھی تنظیموں کے اسلامک سینٹرز، مساجد اور سکول موجود ہیں جہاں اچھی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے ۔ غیر اسلامی ملک میں بھی مسلمان اچھے طریقے سے رہ رہے ہیں۔ بیرون ملک مسلمان اپنی اولادوں کی بہترین تربیت کر رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے مسلمان دنیا کو آّخرت پر ترجیح دینے لگ گئے ہیں۔ اپنی اولاد کی دنیاوی حوالے سے بہت فکر ہوتی ہے۔ دنیا کما کر ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں لیکن آخرت کا کوئی بندوبست نہیں کرتے ۔ اور جب یہی اولاد اسلامی تربیتی ماحول نہ ملنے کی وجہ سے بگڑ جاتی ہے تو ہم رونا شروع کر دیتے ہیں اور پچھتاتے ہیں۔

بگڑنے والے کسی بھی جگہ بگڑ سکتے ہیں اور سنورنے والے کسی بھی جگہ سنور سکتے ہیں۔ لہذا اگر اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کی جائے اور اس کے باوجود وہ غلط راستے کا انتخاب کریں تو والدین قابل گرفت نہیں ہوں گے۔ البتہ اگر اولاد کی صحیح اور مناسب تعلیم و تربیت نہ کی جائے اور اولاد بگڑ جائے تو ایسی صورت میں والدین صحیح تربیت نہ کرنے کمی وجہ سے قابل گرفت ہوں گے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری