کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کا درست طریقہ کیا ہے؟


سوال نمبر:1310
السلام علیکم- آج کل نماز والی کرسی جس کے فرنٹ پر تختہ لگا ہوتا ہے- مساجد اور گھروں میں استعمال ہوتی ہے- اس حوالے سے تمام ضروری مسائل سے آگاہ فرماہیں کہ کس طرح کے مریض یہ کرسی استعمال کر سکتے ہیں اوراس کرسی پر نماز پڑھنےکا درست طریقہ کیا ہے؟

  • سائل: حبیب الرحمان سعیدیمقام: چیچہ وطنی، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 23 دسمبر 2011ء

زمرہ: جدید فقہی مسائل  |  عبادات  |  نماز

جواب:

بعض لوگوں کو کمر، گھٹنوں یا ٹخنوں وغیرہ میں تکلیف ہوتی ہے اور آج کل بوجوہ یہ صورت عام ہے، چنانچہ وہ کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر نماز ادا کرتے ہیں، بعض مریض نہ کھڑے ہو سکتے ہیں، نہ رکوع و سجود صحیح طریقہ سے ادا کر سکتے ہیں، وجہ بڑھاپا ہو یا کمزوری یا جوڑوں یا کمر وغیرہ کا درد، بہر صورت معذوری کی وجہ سے جو کر سکتے ہیں کریں۔ عبادات کے وہ حصے جو ادا نہیں ہو سکتے، ان میں شرعاً رعایت ہے۔ دین اسلام میں نہ تنگی ہے نہ تکلیف، اس کی بنیاد یُسر (آسانی) پر رکھی گئی ہے، یہ سہولتیں اور رعایتیں شارع کی طرف سے ہیں۔ ان سے معذوروں کو کوئی بھی محروم نہیں کر سکتا۔ بعض مخلص، دیندار مگر بے علم حضرات اس کی اجازت نہیں دیتے، ان کے نزدیک اس طرح نماز نہیں ہوتی۔ کئی مسجدوں سے کرسی زبردستی اٹھالی گئی ہے۔ یہ سراسر زیادتی، کم عقلی و کم علمی ہے۔ ہمارے پاس اس بارے میں کثرت سے سوالات آئے اور آتے ہیں۔ اس لیے مسئلہ کی وضاحت کے لئے کچھ عرض کیا جاتا ہے۔ مسئلہ کی دو صورتیں ہیں، ایک جائز، دوسری ناجائز۔

صورت مسئلہ

جائز صورت یہ ہے کہ معذور شخص کے سامنے پتھر، روڑا، لوہا، لکڑی وغیرہ سخت چیز ہو اور وہ اس پر سجدہ کرے، یہ بالکل جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پتھر، اینٹ تختہ اٹھا کر پیشانی کے قریب کرے اور اس پر سجدہ کرے۔ خواہ نمازی خود اٹھائے یا کوئی دوسرا۔ یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔

ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم دخل علی مريض يعوده فوجده يصلی کذلک فقال ان قدرت ان التسجد علی الارض فاسجد و الا فاوم براسک. وروی ان عبدالله ابن مسعود دخل علی اخيه يعود فوجده يصلی و يرفع اليه عود فيسجد عليه فنزع ذلک من يدمن کان فی يده وقال هذا شئی عرض لکم الشيطان اوم لسجودک.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بیمار کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے، دیکھا کہ وہ اسی طرح نماز ادا کرتا ہے، فرمایا اگر زمین پر سجدہ کر سکتے ہو تو سجدہ کرو۔ ورنہ اپنے سر سے اشارہ کرو۔ اور روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے بھائی کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ دیکھا کہ وہ نماز ادا کر رہے ہیں۔ لکڑی اٹھائی جاتی ہے اور وہ اس پر سجدہ کرتے ہیں۔ آپ نے اس شخص کے ہاتھ سے لکڑی چھین لی اور فرمایا، یہ چیز شیطان نے تمہیں پیش کی ہے۔ سجدہ کے لیے اشارہ کرو۔

فان فعل ذلک ينظر ان کان يخفض راسه للرکوع شيئاً ثم للسجود ثم يلزق بجبينه يجوز، لوجود الايماء لا للسجود علی ذلک الشئی.

پھر اگر ایسا کر لیا تو دیکھا جائے گا، اگر مریض نے رکوع کے لئے اپنا سر کسی قدر جھکا لیا تو یہ جھکاؤ سجدہ کے لیے پورا ہو گیا۔ پھر اس لکڑی وغیرہ سے پیشانی چمٹا لیتا ہے، تو یہ جائز ہے کہ اشارہ پایا گیا، نہ اس وجہ سے کہ اس چیز پر سجدہ ہوگیا۔

اگر تکیہ زمین پر رکھا ہے اور آدمی اس پر سجدہ کرتا ہے تو اس کی نماز درست ہے، اس حدیث پاک کی وجہ سے کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آتا ہے،

کانت لتسجد علی مرفقة موضوعة بين يديها لرمد بها ولم عينعها رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم

ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ میں تکلیف تھی، اپنے آگے رکھے ہوئے لکڑی کے تخت پر سجدہ کرتی تھیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا۔

یونہی تندرست آدمی شہر سے باہر سواری پر ہو۔ اور کسی عذر کی بنا پر نیچے نہ اتر سکے، مثلاً دشمن کا خوف، یا درندے کا ڈر، یا کیچڑ گارے کی وجہ سے تو سواری پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرے، نہ رکوع کرے، نہ سجود، اس لیے کہ معذوری کی ان صورتوں میں نہ رکوع کر سکتا ہے نہ قیام نہ سجود۔ یہ تمام صورتیں ایسی ہیں جیسے بیماری کی معذوری۔

حدیث جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری پر اشارہ سے نماز ادا فرماتے تھے، اور رکوع کی نسبت سجدہ کے لیے زیادہ جھکتے تھے۔

(علامه الکاسانی، بدائع الصنائع، 1 : 108 طبع کراچی)

علامہ ابن العابدین الشامی لکھتے ہیں :

ان کان ذلک الموضوع يصح السجود عليه کان سجودا و الافايماء.

اگر معذور نمازی کے آگے رکھی ہوئی چیز پر سجدہ درست ہے تو یہ سجدہ ہوگا۔ ورنہ اشارہ ہو جائے گا۔

(شامی، 2 : 98، طبع کراچی
علامه ابن نجيم حنفی مصری، البحر الرائق، 2 : 113، طبع کراچی
فتاویٰ عالمگيری، 1 : 70، طبع کوئته
المرغينانی، هدايه مع فتح القدير لمحقق علی الاطلاق، 1 : 458، طبع سکهر)

عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں :

يکره لمن فرضه الايماء ان يرفع شيئاً يسجد عليه، فلوفعل و سجد عليه يعتبر موميا فی هذه الحالة.

جس پر اشارہ سے نماز ادا کرنا فرض ہے (یعنی معذور) اس کے لیے کسی چیز کو اٹھا کر اس پر سجدہ کرنا مکروہ ہے، اگر ایسا کیا اور اس پر سجدہ کر لیا تو اس حال میں اشارہ کا اعتبار ہوگا۔

(علامه عبدالرحمن الجزيری، الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 : 500، طبع بيروت)

الحنفیۃ

اذا لم يستطع فله ان يصلی بالکيفية التی تمکنه.

جب معمول کے مطابق نماز ادا کرنے کی طاقت نہ ہو، تو جس حال میں ممکن ہو ادا کر سکتا ہے۔

(الفقه علی المذاهب الاربعة، 1 : 498، طبع بيروت)

بعض سپیشل کرسیوں پر بیٹھنے کے ساتھ سجدہ کرنے کی تختی بھی لگی ہوتی ہے جس پر معذور سجدہ کے لیے پیشانی رکھتے ہیں، اگر اللہ کریم کی بارگاہ مین یہ سجدہ وضع الجبهة علی الارض کے حکم میں قبول ہوگیا۔ یعنی سجدہ نام ہے، زمین پر پیشانی رکھنے کا، تو تبھی نماز درست ہوگی۔ نہیں تو اشارہ تو پایا گیا، پھر بھی نماز درست ہوگئ۔ اسے ناجائز کہنا کسی صورت درست نہیں۔ نہ لڑائی جھگڑا اور سختی کرنے کی شرعاً گنجائش۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا.

(البقرة، 2 : 286)

اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا

ایک اور مقام پر فرمایا :

مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ.

(الحج، 22 : 78)

اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

بشروا ولا تنفروا، ويسروا ولا تعسروا، سکنوا. متفق عليه.

لوگوں کو خوشخبری سنایا کرو (ڈرا ڈرا کر اسلام سے) متنفر نہ کرو۔ اور آسانیاں پیدا کیا کرو، سختی پیدا نہ کرو۔ سکون دیا کرو۔

علماء سے گزارش

آپ نے قرآن و حدیث اور فقہائے امت کے ارشادات پڑھ لیے، جب تک کسی دلیل شرعی (نص) کی مخالفت نہ ہو، عوام سے نرم رویہ اپنائیں، تاکہ وہ مسجد کو عبادات سے آباد کریں، معذوروں کو رعایت دی گئی ہے، اس پر عمل کرنے دیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شرع پر کار بند فرمائے، نفس و شیطان کے کبر و غرور سے بچائے، ہم پر رحم فرمائے، آمین بحرمۃ سیدالعالمین۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی