حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کیسے قبول ہوئی؟


سوال نمبر:1307
میں نے مندرجہ ذيل حدیث پڑھی ہے میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ صحیح ہے یا نہیں؟ (جب آدم علیہ السلام نے غلطی کا ارتکاب کیا تو کہنے لگے : اے میرے رب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے معاف کر دے ، تو اللہ تعالی نے فرمایا اے آدم علیہ السلام تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جان لیا حالانکہ میں نےابھی تک اسے پیدا بھی نہیں کیا؟ تو آدم علیہ السلام کہنے لگے اے رب اس لیے کہ جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے بنا کر روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے پایوں پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا تو مجھے علم ہو گيا کہ تو اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ہی لگاتا ہے جو تیری مخلوق میں سے تجھے سب سے زيادہ محبوب ہو، تو اللہ تعالی نے فرمایا اے آدم تو سچ کہہ رہا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہیں، مجھے اس کے واسطے سے پکارو تو میں تجھے معاف کرتا ہوں، اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا) ۔ الحمدللہ یہ حدیث موضوع ہے ، اسے امام حاکم نے عبداللہ بن مسلم الفھری کے طریق سے بیان کرتے ہیں : حدثنا اسماعیل بن مسلمۃ انبا عبدالرحمن بن زيد بن اسلم عن ابیہ عن جدہ عن عمربن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : جب آدم علیہ السلام نے غلطی کا ارتکاب کیا ۔۔۔ پھر حدیث کو انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے جوکہ سائل نے ذکرکیے ہیں ۔ امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کا علماء کرام کی کثرت نے تعاقب کیا اور اس حدیث کی صحت کا انکار کیا ہے اور اس حدیث پرحکم لگایا ہے کہ یہ حدیث باطل اورموضوع ہے ، اوریہ بیان کیا ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ تعالی خود بھی اس حديث میں تناقض کا شکار ہیں ۔ علماء کے کچھ اقوال پیش کیے جاتے ہیں : امام حاکم رحمہ اللہ کی کلام کا امام ذھبی رحمہ اللہ تعاقب کرتے ہوئے کہتے ہیں : بلکہ یہ حديث موضوع ہے اور عبدالرحمن واہی ہے اور عبداللہ بن مسلم کا مجھے علم ہی نہیں وہ کون ہے ۔ اورمیزان الاعتدال میں امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس طرح لکھتے ہیں یہ خبر باطل ہے ۔ اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے لسان المیزان میں اسی قول کی تائيد کی ہے ۔ اورامام بیھقی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اس طریق سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے یہ روایت متفرد بیان کی ہے اور عبدالرحمن ضعیف ہے اورحافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی نے اسی قول کو صحیح کہا ہے دیکھیں البدایۃ والنھایۃ ( 3 / 323 )۔ اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے الضعیفۃ میں اسے موضوع قرار دیا ہے دیکھیں السلسلۃ الضعیفۃ ( 25 )۔ اورامام حاکم، اللہ تعالی انہیں معاف فرمائے نے خود بھی عبدالرحمن بن زيد کومتھم بوضع الحدیث کہا ہے ، تواب اس کی حدیث صحیح کیسے ہوسکتی ہے ؟ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی \" القاعدۃ الجلیۃ فی التوسل والوسیلۃ ص ( 69 ) \" میں کہتے ہیں : اورامام حاکم کی روایت انہیں روایات میں سے جس کا ان پرانکار کیا گیا ہے ، کیونکہ انہوں نے خود ہی کتاب \" المدخل الی معرفۃ الصحیح من السقیم \" میں کہا ہے کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع احادیث روایت کی ہیں جوکہ اہل علم میں سے غوروفکر کرنے والوں پرمخفی نہيں اس کا گناہ اس پر ہی ہے ، میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زيد بن اسلم بالاتفاق ضعیف ہے اور بہت زيادہ غلطیاں کرتا ہے ۔ دیکھیں \" سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی رحمہ اللہ ( 1 / 38 - 47 )۔

  • سائل: محمدجیلانیمقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 23 دسمبر 2011ء

زمرہ: استغاثہ و استمداد /نداء یار سول اللہ

جواب:

یہ معاملہ فقط مذکورہ بالا احادیث جو آپ نے پیش کی ہیں، ان سے ثابت نہیں ہے، بلکہ خود قرآن مجید میں سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَo

(آل عمران، 3 : 81)

اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوںo

اس آیت مبارکہ میں جو عہد اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام سے لیا وہ عالم ارواح میں لیا۔ تو ثابت ہوا کہ تمام انبیاء کرام کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی عالم ارواح میں پتہ چل گیا تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی سب سے بہتر اور افضل ذات ہیں، سو آدم علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائے تو ان سے جو خطا سرزد ہوئی تھی اس پر انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وسیلہ پیش کیا۔

باقی دوسری احادیث مبارکہ بھی اس آیت کی ترجمانی کر رہی ہیں، اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں۔ لہذا آپ ان احادیث کا انکار نہیں کر سکتے، انہیں وہ ہی موضوع کہے گا، جو منکرین احادیث ہو، لہذا ہمیں قرآن و حدیث کی تعلیمات پر اعتماد کرنا چاہیے۔ اور ایسے لوگوں سے دور رہنا چاہیے، جو فتنہ و فساد کے حامی ہوں۔

یہ ساری احادیث صحیح ہیں، بہت ساری فقہ اور حدیث کی کتب میں آئی ہیں اور بڑے بڑے علماء نے ان کو موضوع نہیں کہا، لہذا جب قرآن سے یہ ثابت ہے تو پھر دوسری بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب قرآن میں آیا ہے، آپ کیا اس کا بھی انکار کریں گے؟ یا موضوع کہیں گے؟

لہذا بغیر تحقیق کے بات نہیں کرنی چاہیے، قرآن و حدیث کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔

آپ بہت سی ایسی باتوں پر یقین کرتے ہیں جو لوگوں سے آپ نے سنی ہیں، آپ نے اعتماد کیا ہے، سارے رشتے اعتماد سے ہی بنتے ہیں، انبیاء اور اولیاء کے بارے میں جو باتیں کی جائیں، ان پر بھی اعتماد کرنا چاہیے، ہر بات کو موضوع یا جھوٹ کہنا بھی غلط ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی