عورت کی دیت کیا ہے؟


سوال نمبر:1301
السلام علیکم! اسلام میں عورت کی دیت کیا ہے؟ براہ مہربانی تفصیل کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں۔ شکریہ

  • سائل: زین العابدینمقام: فیصل آباد، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 06 مارچ 2012ء

زمرہ: حدود و تعزیرات

جواب:

لغوی معنی،

القود وهوالقتل بالقتل اوالجرح بالجرح

قتل کے بدلے قتل کرنا اور زخم کے بدلے زخم لگانا

(علامه ابن منظور افريقی، لسان العرب، 11، 192، طبع بيروت)

قص فلان فلاناً و ضربه ضربا فاقصه ای ادناه من الموت

فلاں نے فلاں سے قصاص لیا اور اسے مار مار کر ادموا کر دیا۔

(ابوالقاسم الحسين بن محمد المعروف بالراعب الاصفهانی، المفردات فی غريب القرآن، ص 404
علامه سيد مرتضی الحسينی الواسطی الزبيدی الحنفی، شرح تاج العروس من جواهر القاموس، 4، 423، طبع بيروت)

قتل کی اقسام

قتل کی پانچ قسمیں ہیں،

  • قتلِ عمد
  • قتل شبہ عمد
  • قتل خطاء
  • قتل قائم مقام خطاء
  • قتلِ بسبب

1۔ قتل عمد

قتل عمد وہ ہے جس میں نیت قتل ہو، دھار دار لوہے سے، جیسے تلوار، چھری، نیزہ، سُوا وغیرہ۔ یونہی بندوق، پستول، ریوالور، گن وغیرہ، آگ، شیشہ یا کسی دھات سے بنا ہوا کوئی ہتھیار۔

2۔ قتل شبہ عمد

ارادے کے ساتھ چھوٹی چھڑی، چھوٹا پتھر یا مُکہ رسید کرنا، جن سے اکثر کوئی مرتا نہیں مگر یہ مر گیا۔

3۔ قتل خطاء

نیت کسی انسان کو مارنے کی نہ تھی مگر غلطی سے کوئی انسان مارا گیا۔ مثلاً شکار پر گولی چلائی اور آدمی قتل ہو گیا۔

4۔ قائم مقام خطاء

جیسے سویا ہوا شخص پہلو بدلے اور دوسرا اس کے نیچے آ کر مر جائے، قتل خطاء و قائم مقام خطاء کا حکم ایک جیسا ہے۔

5۔ قتل بسبب

مثلاً کسی نے کنواں کھودا، یا راستہ میں پتھر رکھا، کوئی شخص کنویں میں گر کر مر گیا یا پتھر سے ٹکرا کر مر گیا تو اس کا حکم یہ ہوگا کہ کنواں کھودنے والے یا پتھر رکھنے والے کے خاندان پر دیت لازم ہوگی، اس میں کفارہ نہیں نہ قاتل محروم الارث ہوگا۔

قتل عمد کی سزا

  1. ایسا قتل گناہ کبیرہ ہے
  2. قصاص لازم آتا ہے
  3. ہاں اگر مقتول کے ورثاء چاہیں تو قاتل سے دیت کے لر بغیر دیت لیے قاتل کو معاف کر سکتے ہیں۔

(2) قتل شبہ عمد کا حکم،

1۔ گناہ کبیرہ کہ مارنے کی نیت تھی۔ کفارہ کہ شبہ خطاء ہے۔ اور قاتل کے خاندان پر مکمل دیت لازم ہو گی۔

یہ دیت تین سال میں دینا ہو گی۔ قتل شبہ عمد سے اگر قاتل مقتول کا شرعا وارث تھا تو قتل کی وجہ سے میراث سے محروم ہو جائے گا۔

(3) قتل خطاء

اس کی دو قسمیں ہیں۔

1۔ خطا فی القصد

 مثلا شکار سمجھ کر آدمی کو مار دیا۔ یا حربی سمجھ کر مار دیا۔حالانکہ وہ مسلمان تھا۔

2۔ خطاء فی الفعل

 نشانے پر ماتا تھا آدمی کو لگ گیا۔ اس سے قاتل پر کفارہ اور اس کے خاندان (ورثاء) پر دیت لازم ہو گی۔ اس میں گناہ نہیں۔ یہ دیت تین سالوں میں مقتول کے ورثا کو دینا ہو گی۔ قاتل اگر مقتول کا قانونا وارث تھا تو محروم ہو جائے گا۔

(هدايه مختصرا، 4، 476)

قتل قائم مقام خطا

مثلا سویا ہوا شخص پہلو بدلتا ہے اور کوئی ساتھ والا اس کے نیچے آ کر مر جاتا ہے۔ اس کا حکم بھی قتل خطا والا ہی ہے۔

(هدايه، 4، 477)

قصاص کہاں کہاں واجب ہے

ہر محفوظ الدم کے قتل پر ہمیشہ قصاص لازم ہے جبکہ عمدا ہو۔ آزاد کو آزاد کے بدلہ میں اور یونہی آزاد کو غلام باندی (محکوم) کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا۔ قصاص کا دارومدار برابری پر ہے۔ عصمت خون دو وجہ سے ہے یا مسلمان ہونے سے یا دارالاسلام میں رہنے سے خواہ غیر مسلم ہو۔ مسلمان کو ذمی اور ذمی کو مسلمان کے بدلے قتل کیا جائے گا۔

مسلمان یا ذمی کو مستامن کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ مستامن کو مستامن کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ مرد کو عورت کے بدلے چھوٹے کو بڑے۔ صحیح کو اندھے اور دائمی بیمار اور ناقص الاعضاء اور پاگل کے عوض قتل کیا جائے گا۔ باپ کو بیٹے کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ بیٹے کو باپ کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا۔

(هدايه 4، 478)

جس نے کسی عمدا زخمی کیا کچھ عرصہ بعد زخمی مر گیا، زخم لگانے والے کو قصاص کے طور پر قتل کیا جائے گا۔ پوری جماعت نے دانستہ ایک آدمی کو قتل کیا۔ سب کو بطور قصاص قتل کیا جائے گا۔ اگر ایک شخص نے دانستہ پوری جماعت کو قتل کیا، مقتولوں کے والی وارث حاضر تھے سب کی طرف سے اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اور بس جس پر قصاص تھا وہ مر گیا تو قصاص ختم۔

(مختصر هدايه 4، 487)

اقسام قتل واحکام قتل

قتل کی چار قسمیں ہیں،

  1. واجب
  2. مباح
  3. محظور (ممنوع)
  4. نہ واجب نہ محظور نہ مباح۔

1۔ قتل واجب

ہم سے لڑنے والے کافر، قیدی ہونے سے اور امان ملنے، یا معاہدہ ہونے سے پہلے، صرف قابل قتال مرد، عورتیں اور بچے جو ہم سے نہ لڑیں ان میں شامل نہیں۔ یونہی وہ باغی جو مسلح ہو اور اسلامی فوج سے لڑیں اگر توبہ سے پہلے گرفتار ہوں تو واجب القتل ہیں۔ یونہی جو شخص محفوظ الدم انسان کو قتل کرنا چاہے تو ہم پر لازم ہے کہ اس کو قتل کر دیں۔ مثلا مسلمان۔ معاہد۔ ذمی وغیرہ کو مارنا چاہے۔ یونہی جادوگر۔ شادی شدہ زانی، اورجو بھی قتل حدا واجب ہو۔ یہ سب قتل واجب کی قسمیں ہیں۔

2۔ قتل مباح

جو کسی بے گناہ کو قتل کرے اور اسے قصاص میں قتل کرنے کا فیصلہ ہو۔ مقتول کے ولی کو اختیار ہے کہ اسے قتل کرے یا خون بہا (دیت) لیکر یا بغیر دیت معاف کر دے۔ یہ قتل مباح پیٹ یا سر میں پہنچنے والے زخم ایک تہائی 1/3 دیت۔ ہڈی کو پہنچنے والے زخم کی دیت پندرہ اونٹ، ہاتھ یا پاؤن کی ایک انگلی ضائع کرنے پر دس اونٹ، اور دانت توڑنے کی دیت پانچ اونٹ،

 (نسائی، دارمی)

امام مالک کی روایت میں ہے آنکھ ضائع کرنے کی دیت پچاس اونٹ، اور ہاتھ کی دیت بھی پچاس اونٹ، اور پاؤں کی دیت بھی پچاس اونٹ، اور ہڈی سے گوشت اتارنے والے زخم کی دیت پانچ اونٹ۔

(مشکواة ص 303)

دیت کی مقدار،

قتل خطاء کی دیت (خونبہا) سو اونٹ ہے۔ تفصیل یہ ہے ۔ بیس سال بھر عمر والی اونٹنیاں، بیس دو سال عمر والے، بیس سال بھر کے اونٹ (مذکر)، بیس حقے (چار سالہ) اور بیس جذع (پنجسالہ)۔ اس طرح،

  1. سال بھی عمر والی اونٹنیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔20 (بنت مخاض)
  2. دو سالہ اونٹنیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔20 (بنت لبون)
  3. سال بھی عمر کے اونٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔20 (ابن مخاض)
  4. چار سالہ اونٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔20 (حقہ)
  5. پانچ سالہ اونٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔20 (جذعہ)

(هدايه، 499، البحر الرائق 8، 327)

و ان ورد بلفظ الخطاء لکن غيره ملحق به انه مجمل في بيان القدر فبين عليه الصلوة والسلام قدر الدية بقوله عليه الصلاة والسلام فی النفس المومنته مائة من الابل

 گو قرآن میں قتل خطاء کے ساتھ دیت کا ذکر ہے مگر دوسرا (قتل عمد) بھی اس سے ملحق ہے۔

ہاں مقدار دیت مجمل ہے۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یوں بیان فرمایا۔  مومن کی جان کی دیت سو اونٹ ہے۔

(بدائع الصنائع 7، 257)

 اطلق سبحانه و تعالی القول بالدية فی جميع انواع القتل من غير فعل فدل ان الواجب فی الکل علی قدر واحد

اللہ تعالی نے قتل کی تمام قسموں پر بلا تفریق دیت کا لفظ بولا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے۔ کہ دیت سب صورتوں میں ایک جیسی لازم ہے۔

 (بدائع الصنائع، 7، 255)

نفس مومنہ کی دیت سو اونٹ ہے۔ نفس مومنہ میں مرد عورت، بچہ، بڑا، کمانے والا، نہ کمانے والا۔

مرد عورت کی دیت برابر،

بیمار، تندرست، بے کار، بیروزگار، صاحب روزگار، معذور سبھی شامل ہیں۔ سب انسانوں۔ مسلمانون اور ذمیوں (غیر مسلم لوگ جو دارالاسلام میں رہتے ہیں) مردوں۔ عورتوں کے خون کے برابر قدر و منزلت رکھتے ہیں۔ اور سب کی دیت شرعا برابر ہے۔ واجب نہیں۔ یونہی حربی قیدی جو ہمارے قبضہ میں ہیں، امام کو اختیار ہے کہ انہیں قتل کرے یا چھوڑ دے، یونہی جو مسلمان دارالحرب میں چلا جائے اسے وہاں دشمن کو قتل کرنا یا قیدی بنانا جائز ہے۔

3۔ قتل محظور(ممنوع)،

اس کی چند صورتیں ہیں۔

  1. جس میں قصاص واجب ہے۔ یہ ہے مسلمان کو دارالاسلام میں، بلاشبہ قصدا عمدا عمل کرنا، اس کی سزا یہ ہے کہ قاتل کو قصاص مین قتل کیا جائے۔
  2. ایک وہ قتل ہے جس میں قصاص نہیں دیت ہے، یہ قتل شبہ عمد میں ہے، یونہی باپ کا بیٹے کو قتل کرنا، اور حربی مستامن اور معاہد کو قتل کرنا، جہاں شبہ پیدا ہو جائے وہاں قصاص نہیں دیت ہے۔

4۔ وہ قتل جس پر قاتل پر کوئی سزا نہیں،

دارالحرب میں رہنے والے مسلمانوں کو دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے قتل کرنا یونہی دار الحرب میں قیدی مسلمان کو قتل کرنا۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر، قاتل کے لئے کوئی حد نہیں، ہاں تعزیر کا دروازہ کھلا ہے۔ وہ دی جا سکتی ہے۔

5۔ وہ قتل جو نہ واجب ہے نہ مباح نہ ممنوع،

یہ ہے خطاء یا بھول سے قتل کرنے والے کا قتل کرنا سونے والے۔ پاگل اور بچے کا کسی کو قتل کرنا۔

(امام ابوبکر احمد بن علی رازی الجصاص الحنفی م 370ه احکام القرآن 2، 244 طبع لاهور)

مقدار دیت

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات متواترہ متوارثہ سے یہ وضاحت فرمائی گئ ہے کہ دیت کی مقدار سو اونٹ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔

الا ان دية الخطاء اشبه العمد ما کان بالسو والعصاء مائة من الابل

سنو! قتل خطا کی دیت قتل عمد کی طرح ہے۔ جو کوئی کوڑے یا لاٹھی سے قتل کیا جائے اس کی دیت سو اونٹ ہے نسائی۔ ابن ماجہ، دارمی، ابو داود۔

یہاں مرد۔ عورت۔ بچہ بالغ کی تفریق نہیں سب کی دیت مقرر فرمائی گئی ہے۔

2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اہل یمن کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ وضاحت موجود ہے

 من اعتبط مومنا قتلا فانه قوريده الا ان يرضی اولياء المقتول وفيه ان الرجل يقتل بالمراة وفيه فی النفس الدية مائة من الابل وعلی اهل الذهب الف دينار الخ.

جو کسی بے گناہ مسلمان کو قتل کرے تو وہ اپنے کیے کے عوض قصاصا قتل کیا جائے گا۔ ہاں اگر مقتول کے والی وارث (دیت پر یا بغیر دیت معاف کرنے پر) راضی ہو جائیں (تو کر سکتے ہیں)۔

قتل ناحق۔ قرآن کریم کی روشنی میں

(1) مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا.

جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)

 (المائده، 5، 32)

(2) وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّهِ وَكَانَ اللّهُ عَلِيمًا حَكِيمًاoوَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا.

اور کسی مسلمان کے لئے (جائز) نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے مگر غلطی سے، اور جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے، اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام (یا باندی) کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔ پھر جس شخص کو (غلام یا باندی) میسر نہ ہو تو (اس پر) پے در پے دو مہینے کے روزے (لازم) ہیں۔ اللہ کی طرف سے (یہ اس کی) توبہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےoاور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہےo

(النساء، 4، 92-93)

(3) وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ.

اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حق (شرعی) کے (یعنی قانون کے مطابق ذاتی دفاع کی خاطر اور فتنہ و فساد اور دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے)، (الانعام، 6، 152)

امام رازی فرماتے ہیں تمام علمائے امت اس پر اجماع ہے کہ اس آیت میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔

فوجب ان يکون الحکم ثابت بالسوية

سو لازم ہے کہ حکم بھی اس میں برابر برابر ثابت ہو۔

(تفسير کبير، 10، 233 طبع ايران)

قتل ناحق احادیث مبارکہ کی روشنی میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔

لا يحل دم امرئ مسلم يشهدان لا اله الله وانی رسول الله الا باحدی ثلث النفس بالنفس والثيب الزانی والمارق لدينه التارک للجماعة

کسی مسلمان کا خون بہانا جو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تین میں سے کسی ایک جرم کے بدلہ میں ہی حلال ہو سکتا ہے۔ کسی کے بدلہ میں شادی شدہ زانی، دین کو چھوڑ کر جماعت سے الگ ہونے والا۔(متفق علیہ)

تمام مسلمانوں کے خون کے برابر ہیں،

حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔

المسلمون تتکافؤ دماؤهم ويسعی بذمتهم ادناهم ویرد عليهم اقصاهم وهم يد علی من سواهم

مسلمانوں کے خون برابر ہیں، اور ان کا عام آدمی ان کے وعدے (معاہدے) کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا اور ان کا دور والا ان پر مال غنیمت لوٹائے گا۔ اور دوسرے (مسلمانوں کی مدد کرنے میں) ایک ہاتھ کی طرح ہیں۔

(ابو داؤد، نسائی، ابن ماجه)

غور کرو! مسلمانوں کو خون برابر ہیں۔ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، سب کی دیت برابر ہے۔ قصاص ودیت میں کچھ فرق نہیں۔ عزت وحرمت، قدر وقیمت میں برابر ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔

جس کو خون یا زخم سے تکلیف پہنچائی جائے اس کو تین میں سے ایک چیز کا اختیار ہے۔ اگر چوتھی چاہے تو اس کو ہاتھ پکڑ لو!

بين ان يقتص او يعفو او ياخذا العقل.

قصاص (بدلہ) لے یا معاف کر دے۔یا دیت (خون بہا) لے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز لے لی۔ پھر اس کے بعد زیادتی کی تو اس کے لئے دوزخ ہے۔ ہمیشہ ہمیشہاسی میں رہے(دارمی)

مقدار دیت،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ چھنگلی اور انگوٹھے کی دیت برابر ہے۔

(یعنی دس دس اونٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل یمن کی طرف جو خط لکھا، اس میں یہ بات بھی تھی۔

جس نے کسی مسلمان کو بے قصور قتل کیا اس سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر مقتول کے وارث دیت پر راضی ہو جائیں تو دیت پر صلح ہو سکتی ہے۔ اس میں یہ بھی تھا کہ مرد کو عورت کہ بدلہ قتل کیا جائے گا۔ اس میں یہ بھی تھا کہ

فی النفس الدية مائة من الابل وفی الاسنان دية

جان کی دیت سو اونٹ اور دانتوں (کے توڑنے) پر دیت ہے۔ ہونٹوں میں دیت ہے۔ خصیوں میں دیت ہے۔ آلہ تناسل میں دیت ہے۔ کمر میں دیت ہے۔ آنکھوں میں دیت ہے۔ایک پاؤں میں آدھی دیت ہے۔ اور دماغی زخم میں ایک تہائی دیت ہے۔ پیٹ کے زخم میں تہائی دیت ہے۔ہڈی توڑنے یا اپنے محل سے نکالنے پر پندرہ اونٹ اور ہاتھ پیر کی ہر انگلی کی دیت دس اونٹ۔ دانت توڑنے کی پانچ اونٹ۔ نسائی، دارمی، موطا امام مالک میں ہے آنکھ پھوڑنے کی پچاس اونٹ، ہاتھ کی پچاس اونٹ۔ پاؤں کی بھی پچاس اونٹ۔ اور وہ زخم جس سے گوشت ہڈی سے اتر جائے اور ہڈی ننگی ہو جائے پانچ اونٹ۔

(مشکواة ص 303)

شبہ عمد کی دیت،

حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت ہے۔ قتل شبہ عمد کی دیت تین حصوں میں تقسیم ہو گی۔

33 حقے۔اونٹ کا وہ بچہ جو تین سال گزار کر چوتھے میں ہو۔

33 جذعے جن پر چار سال گزر جائیں پانچویں میں ہو۔

34 چھ سالہ۔

 (ابو داؤد)

فقہائے کرام سے،

الدية. المال الذی هو بدل النفس

جان کے مقابلہ میں مال۔

الدية اسم لضمان يجب بمقابلة الادمی او طرف منه

دیت نام ہے اس تاوان کا جو آدمی یا اس کے کسی عضو کے بدلے ادا کیا جائے۔

(فتح القدير شرح هدايه، 9، 204، البحر الرائق، 8، 327)

الدية فی الشرع اسم للمال الذی هو بدل النفس

شریعت میں دیت نام ہے اس مال کا جو جان کے بدلہ میں دیا جائے۔

 (الدرالمختار رد المختارشامی، 6، 573)

محرر مذہب! امام محمد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔

 هی فی الشرع اسم للمال الذی يجب ضمانا بدل النفس او الطرف منها

شریعت میں دیت نام ہے۔ اس مال کا جو جان یا کسی عضو کے بدلے میں لازم ہو۔

ان فی النفس مائة من الابل

بیشک جان کی دیت سو اونٹ ہے۔

کتاب الحجة علی اهل المدينة، 4، 255

الديته قيمة النفس مائة من الابل

دیت جان کی قیمت ہے۔

(کتاب الحجة، 4، 258)

ابو بکر جصاص حنفی نے فرمایا۔

الدية قيمة النفس وقد اتفق الجميع علی ان لها مقدار امعلوما لا يزاد عليه ولا يقص منه وانها غير ما کولة الی اجتهاد الرای

 دیت جان کی قیمت ہے اور اس پر سب آئمہ کا اتفاق ہے کہ اس کی مقدار معلوم و متعین ہے نہ اس پر اضافہ ہو سکے نہ اس میں کمی۔اور نہ اسے اجتہاد رائے کے حوالہ کیا جائے۔

(امام محمد بن حسن سيبانی کتاب الحجة، 4، 258)

دیت ومقدار دیت

ان الدية مصدر ودی القاتل المقتول اذا اعطی وليه المال الذي هو بدل النفس .... فی القاموس الدية بالکسر حق القتيل .... فی الصحاح وديت القتيل اديه اذا اعطيت ديته .... فی الکافی الديه الذی هو بدل النفس والارش اسم للواجب علی ما دون النفس .... الظاهر .... الدية مختصة بما هو بدل النفس .... فالا ظهر فی تفسير الدية ما ذکر صاحب الغاية اخرا .... الدية اسم لضمان يجب بمقابلة الادمی اوطرف منه

دیت مصدر ہے، قاتل نے مقتول کی دیت دی، یعنی اس کے وارث کو وہ مال دیا جو جان کا بدلہ ہے ۔۔۔۔ قاموس میں ہے دیۃ کسرہ کے ساتھ بمعنی مقتول کا حق ۔۔۔۔ امام جوہری کی کتاب صحاح میں ہے، میں نے مقتول کی دیت دی ۔۔۔۔ کتاب کافی ہے۔ دیت وہ مال جو جان کا بدلہ ہے۔ ارش (تاوان) وہ مال جو جان سے کمتر زخم لگانے پر لازم آئے۔ ظاہر یہی ہے کہ دیت صرف اس مال پر بولا جاتا ہے جو جان کا عوض ہے۔ ۔۔۔۔ زیادہ ظاہر دیت کی تفسیر میں وہ عبارت ہے جسے مصنف عایہ نے آخر میں لکھا ہے۔ کہ دیت اس تاوان کا نام ہے جو آدمی یا اس کے کسی عضو کے مقابلہ میں واجب ہو۔

(فتح القدير شرح هدايه، 9، 204)

 الدية ضمان الدم

دیت خون کا تاوان ہے۔

(بدائع الصنائع 7، )

ان الادمية فيه اصل والمالية عارض وتبع والعارض لا يعارض الاصل والتبع لا يعارض المتبوع.

غلام میں انسان ہونا اصل ہے اور مال ہونا عارضی اور تابع ہے اور عارضی چیز اصل کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یونہی تابع متبوع کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

الثالث ان المال خلق وقاية النفس والنفس ما خلق وقاية للمال فکانت الادمية فيه اصلا وجودا وبقاء وعرضا والثانی حرمة الادمی فوق حرمة الادميی فوق حرمة المال. لان حرمة المال لغيره وحرمة الادمی لعينه فکان اعتبار النفسية واهدار المالية اولی من القلب.

تیسری بات یہ ہے کہ مال جان بچانے کے لیے پیدا ہوا ہے، انسان مال بچانے کے لیے پیدا نہیں ہوا۔پس اس مسئلہ میں آدمی ہونا اصل ہے وجود، بقاء اور ملحوظ رکھنے میں، دوسری بات یہ ہے کہ انسان کی عزت مال کی عزت سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ مال کی عزت غیر کی وجہ سے ہے جب کہ آدمی کی حرمت اس کی اپنی وجہ سے ہے۔ پس ذات کا اعتبار کرنا اور مال کا نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ اس کے برعکس کرنے سے ہے۔

(بدائع الصنائع، 7، 258)

عورت کی دیت،

قرآن کریم اور صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے کہ اسلام میں مرد اور عورت کی دیت برابر ہے۔ اور یہ بات بالکل واضح ہے۔ ان نصوص کو مجمل کہنا بالکل غلط ہے اور اس کے خلاف کوئی خبر واحد بالفرض ہو تو نا قابل قبول ہے۔ جیسا کہ علم اصول فقہ میں تحقیق ہے۔ متعدد آیات و آحادیث میں جب مرد اور عورت کی دیت میں فرق نہیں کیا گیا تو ہمیں، کیا مجبوری ہے کہ تنکوں کا سہارا لے کر اسے تسلیم کریں اور علمی دنیا کے سامنے اسلامی احکام کو محل اعتراض بنائیں۔

خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھے
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہے

1۔ ناک کے نرم حصہ کی دیت مکمل 100 اونٹ یا ایک ہزار دینار (سونا)

2۔ زبان کاٹو دیت مکمل 100 یا دس ہزار درہم (چاندی)

3۔ آلہ تناسل ضائع کر دیا دیت مکمل 100

4۔خصیے ضائع کر دیے، دیت مکمل 100

5۔ حشفہ، آل تناسل کا سرا، دیت مکمل 100

6۔ ضرب لگنے سے عقل زائل ہو جائے تو دیت مکمل 100

7۔ ضرب لگنے سے قوت سماعت، دیت مکمل 100

8۔ ضرب لگنے سے بصارت زائل، دیت مکمل 100

9۔ ضرب لگنے سے شامہ (سونگھنے کی)، دیت مکمل 100

10۔ ضرب لگنے سے ذائقہ زائل ہو جائے، دیت مکمل 100

11۔ کسی کی داڑھی مونڈھ لی اور پھر بال نہ آگے، دیت مکمل 100

12۔ سر کے بال مونڈھ لیے تو دیت مکمل 100

13۔ دونوں ابرو مونڈھ دیے مکمل دیت 100

14۔ ایک ابرو مونڈھ دیا نصف دیت 50

15۔ دونوں آنکھوں۔ دونوں ہاتھوں۔ دونوں پاؤں 100، 100، 100 تین دیتیں۔

16۔ دونوں ہونٹوں، دونوں کانوں، دونوں خصیوں کے کاٹنے پر 100، 100، 100، تین دیتیں۔

ان سب میں۔

17۔ اگر ایک ایک کاٹا تو نصف دیت یعنی 50 اونٹ۔

18۔ عورت کے دو پستان کاٹنے پر دیت مکمل دیت 100 اونٹ ایک پر نصف یعنی 50 اونٹ۔

19۔ عورت کے دونوں پستانوں کے سرے کاٹنے پر مکمل دیت۔

20۔ ایک کاٹنے پر نصف دیت۔

21۔ آنکھوں کی چار پلکیں کاٹنے پر پوری دیت۔ اور ایک پر چوتھائی؟ احتمال ہے۔ کہ اس سے مراد بال ہوں یا، بال اگنے کی جگہ حکم سب کا یکساں ہے۔

22۔ ہاتھ پاؤں کی ہر انگلی کی دیت دس اونٹ۔

23۔ جن انگلیوں میں تین پورے ہیں ان میں سے ہر پورے کی دیت پوری انگلی کی دیت کی ایک تہائی۔ 10 / 3، جن میں دو پورے ہیں، ہر پورے کی دیت پانچ، پانچ اونٹ۔

24۔ ہر دانت توڑنے کی دیت پانچ اونٹ۔ داڑھیں، دانت سب برابر ہیں۔ (الخ)

25. فان القته حيا ثم مات ففيه کاملة

اگر حاملہ کو مارنے سے اس کا زندہ بچہ گرا پھر مر گیا تو پوری دیت۔

ويستوي فيه الذکر والانثی

اس میں مذکر ومونث کی دیت برابر ہے۔

مگر پوری عورت کو قتل کیا جائے اسکی دیت مرد کی دیت سے آدھی یعنی پچاس اونٹ۔

لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظيم.

امام ابن همام هدايه مع فح القدير، 9، 216

علامه ابن نجيم حنفی، البحر الرائق، 8، 332

علامه ابن عابدين ردالمختار شامی، 6، 579

علامه علاء الدين ابوبکر بن مسعود کاسانی حنفی بدائع الصنائع، 7، 296

علامه عبدالرحمان الجزيری الفقه علی المذاهب الاربعه، 5، 335 طبع بیروت

علامه شيخ نظام الدين و جماعة من علماء الهند، فتاوی عالمگيری، 6، 28

مرد اور عورت کی دیت قرآن واحادیث صحیحہ صریحہ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیقات کی روشنی میں برابر ہے۔ یعنی ایک سو اونٹ یا ان کی قیمت یا ایک ہزار دینار یا دس ہزار درہم مگر افسوس کہ بعض ضعیف روایات واخبار احاد اور کمزور تر عقلی دلائل کے بل بوتے پر عورت کی دیت نصف قرار دی گئی ہے اور حقیقت بیان کرنے والے علماء پر ناروا طعن وطنز کیا جاتا ہے غور کریں۔ عوام ہی نہیں خواص بھی، خواص بھی نہیں اخص الخواص بھی۔ علمائے کرام اور مشائخ عظام بھی قرآن کریم احادیث صحیحہ صریحہ۔ امام اعظم اور دیگر ائمہ امت کی تصریحات۔ قواعد ائمہ مجتہدین، اصول تفسیر وحدیث وفقہ کی رو عقل وشعور وتدبر وتدبر وتفکر سے اللہ کے دین میں کہیں یہ گنجائش ہے کہ مرد کی دیت مکمل اور عورت کی نصف؟ حاشا وکلا۔

روایات اور وہ بھی احاد وضعاف کیا قرآن و حدیث واجماع کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں صحت حدیث کی تو پہلی شرط ہی یہ ہے کہ وہ قرآن کریم اور عقل سلیم اور اپنے سے اعلی حدیث کے خلاف نہ ہو۔ اگر سب کے خلاف کوئی روایت ہو تو ہم اس کی توجیہ وتاویل ممکن ہوئی تو کریں گے، ورنہ واضح۔ محکم دلائل کے ہوتے ہوئے اسے ناقابل عمل قرار دیں گے۔ ہمیں کچھ تو سوچنا چاہیے۔ دین اسلام کی عظمت کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اغیار کے طعن وتشنیع سے اسے بچانا چاہیے۔

ہم نے یہ چوبیس مسائل ناقابل تردید حوالہ جات کے ساتھ نقل کر دیے ہیں۔ تاکہ اہل علم ہی نہیں۔ عام مسلمان بھی انہیں پڑھیں اور خدا توفیق دے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر دھیان دے کر اپنے ضمیر سے فیصلہ لیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حضرت وابصہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا نیکی اور بدی کی حقیقت پوچھنے آئے ہو انہوں نے عرض کی جی حضور! سرکار نے ان کے سینے پر دست شفقت مارتے ہوئے فرمایا۔

استفت نفسک استفت قلبک

تین بار فرمایا اپنے نفس سے فتوی مانگ۔ اپنے دل سے فتوی مانگ۔

البر ما اطمانت اليه النفس واطمان اليه القلب والاثم ما حاک فی النفس وتردد فی الصدر وان افتاک الناس.

نیکی وہ ہے جس پر نفس مطمئن ہو جائے۔ دل مظمئن ہو جائے۔ اور گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور سینے میں متردد ہو، خواہ لوگ تجھے اس کے بارے میں فتوے دیتے پھریں۔

(مشکواة ص 242 بحواله احمد، دارمی)

سو اے عزیزو! قرآن و حدیث اور فقہی حوالہ جات بار بار پڑھیں اور دیکھیں قرآن وحدیث اور عقل ونقل کی روشنی میں مرد اور عورت کی دیت میں مساوات ہے کہ نہیں۔افسوس صد افسوس ناک، زبان، آلہ، خصیے، حشفہ، ناک، کان، داڑھی، سر کے بال، دونوں ابرو، پستان، ان کے سرے، انکھوں کی پلکیں وغیرہ وغیرہ سب کی دیت مکمل سو اونٹ اور پوری عورت کی دیت آدھی یعنی 50 اونٹ۔

قرآن و حدیث نے عورت ومرد کو بحیثیت انسان دیت وقصاص میں برابر قرار دیا ہے۔ مگر ہم کبھی ان کی کمائی کو معیار بناتے ہیں۔ اور کبھی ان کی شہادت کو۔ حالانکہ محض عقلی ڈھکونسلوں سے نصوص متروک نہیں ہو سکتیں۔ اگر روزی کمانا ہی وجہ ترجیح ہے تو وہ مرد جو بوڑھے۔ معذور، ناکارہ ہیں ان کی دیت آدھی بھی نہیں ہونی چاہیے اور جو عورت لکھی پڑھی اعلی عہدے پر فائز ہو کر بڑی بڑی تنخواہ وصول کرتی ہے۔ اس کی دیت مرد کے برابر بلکہ کئی مردوں کی دیت سے زائد ہونی چاہیے۔ روزی کمانا۔ تعلیم یافتہ ہونا، نہ ہونا دیت کا دارومدار نہیں۔ انسان اور صرف انسان محترم ہونا اس کی دیت کے مرد کی دیت کے برابر ہونے کا سبب۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی