باجماعت نماز میں‌ مقتدی کی قرأت کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:1107
السلام علیکم جناب کیا امام کے پیچھے ہر فرض نماز میں کوئی بھی سورت پڑھنی ہے؟

  • سائل: سید تجملمقام: لاہور، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 13 اگست 2011ء

زمرہ: فاتحہ خلف الامام (امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا)

جواب:

امام کے پیچھے مقتدی نماز میں فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت نہ پڑھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، صحابہ و ائمہ کبار کا معمول ہے۔ یہ قاعدہ یاد رکھ لیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اس کا فرمان سب سے بڑا ہے، جو بات قرآن سے ثابت ہو اس پر اعتراض مسلمان کا کام نہیں۔ قرآن مجید کے مقابلہ میں نہ کوئی روایت پیش ہو سکتی ہے نہ کسی بزرگ کا قول۔ مسئلہ مسؤلہ میں ہم پہلے قرآن کریم سے ہدایت لیں گے، پھر حدیث پاک سے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.

(الاعراف، 7 : 204)

اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

یہ قرآن حکیم کا حکم ہے جس میں کوئی شک نہیں، واضح ہے کوئی ابہام نہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور چپ رہو۔ پورے قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو مت سنو اور مت خاموش رہو، بلکہ تم بھی پڑھا کرو جب امام فاتحہ پڑھتا ہے تم بھی پڑھو، نہیں بلکہ فاتحہ بھی قرآن مجید کی ایک سورت ہے۔ لہٰذا قرآن ہے اور امام چونکہ تلاوت کر رہا ہے، لہٰذا سب کو غور سے سننے اور چپ رہنے کا حکم ہے، اب جو صاحب یہ فرمائیں کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی فاتحہ پڑھے، اس سے قرآن مجید کی آیت پوچھیں۔ قرآن کا مقابلہ حدیث سے نہیں ہو سکتا نہ روایت قرآن کی آیت کو منسوخ کرتی ہے۔

ظہر اور عصر میں نماز میں قرات آہستہ ہوتی ہے جو سنی نہیں جاتی، فجر، مغرب اور عشا کی نمازوں میں قرات با آواز بلند ہوتی ہے جو سنی جاتی ہے، گویا قرآن مجید کی دو صورتیں ہوئیں۔

1۔    جہری، یعنی بلند آواز کے ساتھ، جیسے فجر، مغرب اور عشا

2۔    سری، یعنی آہستہ، جیسے ظہر و عصر۔

لہٰذا ایک ہی آیت میں دو حکم فرمائے گئے، ایک یہ کہ کان لگا کر سنو، یعنی جب آواز آئے، جیسے جہری نمازوں میں۔ دوسرا چپ رہو، یعنی جب آواز نہ آئے، جیسے سری نمازوں میں۔

حدیث پاک کی توضیح :

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة.

جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من صلی صلوة لم يقرا فيها بام القرآن فهی خداج ثلاثا غير تام.

(صحيح مسلم، 1 : 149)

جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے۔ تین بار فرمایا مکمل نہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

جب تم نماز کے لیے آؤ اس وقت ہم سجدے میں ہوں۔

فاسجدوا و لا تعدوه شياء و من ادرک رکعة فقد ادرک الصلوٰة.

(سنن ابی داؤد، 1 : 136)

تو تم بھی سجدہ کرو اور اس کا شمار نہ کرنا، اور جس نے رکوع پا لیا اس نے (رکعت) پا لی۔

کیا فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ؟

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، حدیث پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان، فعل یا تقریر ہے، قرآن مجید میں کمی بیشی جائز نہیں۔ حدیث پاک میں کسی راوی سے غلطی سے کمی بیشی ہو سکتی ہے، اس لیے صحت حدیث کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے خلاف نہ ہو۔ قرآن مجید نے فاتحہ پڑھنے کی قید نہیں لگائی بلکہ جو بھی قرآن مجید جہاں سے آسان ہو پڑھنا فرض قرار دیا، تو اب فاتحہ کی تخصیص بطور فرض قرآن کے عموم و اطلاق کے خلاف ہوگا۔ ہاں مطلق قرآن پڑھنا، قرآن مجید کی رو سے فرض ہے اور فاتحہ پڑھنا بحکم حدیث واجب۔

اگر فاتحہ کے علاوہ قرآن پڑھنا تو فرض ادا ہو جائے گا۔ لیکن واجب رہ گیا۔ غلطی سے ایسا کیا تو سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی۔ دانستہ کیا تو دوبارہ ادا کرے کہ واجب الاعادہ ہے، فھی خداج کا مفہوم یہی ہے۔ نماز نہ ہوئی کا مفہوم یہی ہے کہ ناقص ہوئی۔ جس نے امام کے پیچھے رکوع پا لیا اس نے پوری رکعت پا لی، اگر فاتحہ پڑھنا فرض ہو تو رکعت کیسے مل سکتی ہے؟ حالانکہ بالاتفاق رکوع میں ملنے والا رکعت پا لیتا ہے۔ پتہ چلا کہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں۔

امام کے پیچھے فاتحہ یا دیگر قرآن نہ پڑھنے کا حکم حدیث پاک سے :

1۔    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہری قراءت والی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا :

هل قرا معی احد منکم انفا فقال رجل نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، قال انی اقول مالی انازع القرآن قال فانتهی الناس عن القراة مع رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فيما جهر فيه، بالقراة عن الصلوة حين سمعوا ذلک من رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم.

(مالک، احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجه، بحواله مشکوٰة : 81)

ابھی ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرآن پڑھا؟ ایک شخص نے عرض کی جی ہاں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فرمایا میں کہہ رہا تھا میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیوں ہو رہا ہے؟ کہا اس کے بعد جب لوگوں نے یہ بات جہری نمازوں کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن لی تو قراءت خلف الامام ترک کر دی۔

2۔    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ان المصلی يناجی ربه و لا يجهر بعضکم علی بعض بالقرآن.

(احمد بن حنبل، بحواله مشکوٰٰة : 81)

نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتاہے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کوئی آواز سے قرآن نہ پڑھے۔

سو اسے دیکھنا چاہیے کہ کیسی سرگوشی کر رہا ہے۔

3۔    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

انما جعل الامام ليوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا.

(ابو داؤد، نسائی، ابن ماجه، بحواله مشکوٰة : 81)

امام صرف اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ پھر جب تکبیر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآن پڑھے تو خاموش رہو۔

4۔    حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے،

فثقلت عليه القراءة، فلما فرغ قال لعلکم تقرؤن خلف امامکم قلنا نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، قال لا تفعلوا الا بفاتحة الکتاب فانه لا صلوة لمن لم يقرا بها.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن پڑھنا دشوار ہوگیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا، شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ ہم نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فرمایا ایسا مت کرو۔ ہاں فاتحہ، کہ جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی۔

اس کی وضاحت اوپر آ چکی ہے۔

5۔    حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

نماز پڑھنے لگو تو صفیں سیدھی کرو پھر تم میں سے ایک امامت کروائے، جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تم آمین کہو۔ اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ فاذا کبر و رکع فکبروا وارکعوا. واذا قراً فانصتوا.

جب تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تکبیر کہو اور رکوع کرو، اور جب قرآن پڑھے تم خاموش رہو۔

(مشکوٰة، بحواله صحيح مسلم : 79)

6۔    حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں :

اذا انت قمت فی صلوتک فکبر الله عزوجل ثم اقراء ما تيسر عليک من القرآن.

(ابو داؤد، 1 : 132)

جب نماز میں کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو، پھر جو قرآن میں سے آسان لگے پڑھو۔

شروع اسلام میں نماز میں گفتگو بھی کر لیتے تھے :

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

کنا نتکلم فی الصلوٰة يکلم احدنا اخاه فی حاجته حتی نزلت هذه الا به حافظوا علی الصلوٰت و الصلوة و الوسطی و قوموا لله قانتين فامرنا بالسکوت.

(صحيح بخاری، 2 : 250، جامع ترمذی، 1 : 123)

نماز میں بات چیت کر لیتے تھے، ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے کام اور حاجت سے متعلق پوچھتا، یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ اتری تمام نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیان والی نماز کی (بھی) اور اللہ کے لیے عاجزی سے کھڑا ہوا کرو۔ پھر ہمیں خاموش رہنے کا حکم ہوا۔

خلاصہ کلام :

ابتدائے اسلام میں وہ پابندیاں نہیں تھیں جو بعد میں آئیں نماز میں گفتگو تک ہوتی تھی،

فامرنا بالسکوت.

پھر ہمیں خاموشی کا حکم ملا۔

پس پہلے کوئی صاحب حکم واضح نہ ہونے کی وجہ سے فاتحہ خلف الامام بھی پڑھتا تھا تو خاموشی کے حکم سے وہ بھی خاموش ہو گیا، قرآن کریم کے حکم فاستمعوا لہ وانصتوا، سنو اور چپ رہو، کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد خاموشی ہمارے اطمینان کے لیے کافی ہے۔ پس ہم امام کے پیچھے مطلق قرآن پڑھنے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ قعدے میں جو قرآنی دعائیں پڑھی جاتی ہیں، ہم ان کو بطور قراءت نہیں بطور دعا پڑھتے ہیں۔ نیز مقام قراءت قیام ہے، قعدہ نہیں۔

اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب
المنہاج السوی من الحدیث النبوی
کا مطالعہ کریں

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی