Fatwa Online

کیا ولی کا علم نبی کے علم سے زیادہ ہوسکتا ہے؟

سوال نمبر:869

حضرت خضر علیہ السلام ولی ہیں اور حضرت موسی علیہ السلام نبی، تو ولی کا علم نبی سے زیادہ کیسے ہو گیا؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد وقاص احمد

  • مقام: لاہور، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 14 اپریل 2011ء

موضوع:عقائد

جواب:
حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض ولایت خضر کے قائل ہیں اور بعض ان کی نبوت کے۔

اگر ان کو ولی جانا جائے تو تب بھی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت اور افضلیت میں کوئی نقص  واقع نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو خطاب فرما رہے تھے تو کسی نے پوچھا کہ اس وقت سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ہوں۔ اللہ مجدہ کو یہ جواب پسند نہیں آیا اور حکم دیا کہ آپ ہمارے ایک برگزیدہ بندے سے ضرور ملاقات کریں ہم نے اس کو علم لدنی عطا کیا ہے۔ (تفسیر مظہری)

قرآن پاک میں ہے :

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًاo

(الْكَهْف ، 18 : 65)

تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علم لدنی (یعنی اسرار و معارف کا الہامی علم) سکھایا تھاo

اسی طرح خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ ایک علم مجھے عطا کیا گیا ہے جو آپ کو معلوم نہیں اور ایک علم آپ کو عطا کیا گیا ہے جو مجھے معلوم نہیں۔ (کنزالایمان)

صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ علم العقائد اور علم الشریعہ میں ہر نبی اپنی امت سے  زیادہ علم والا ہوتا ہے۔ اگر کسی غیر نبی کو جزوی فضیلت حاصل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام کا حضرت خضر علیہ السلام کی طرف جانا اس لیے تھا کہ انہوں نے علم کی نیت اپنی طرف منسوب کی تھی تو اللہ مجدہ نے چاہا کہ انہیں اپنے ایک خاص بندے کے علم کے بارے میں بھی بتا دوں۔

اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام ہر لحاظ سے افضل اور بڑے مرتبے پر فائز ہیں مگر کسی حکمت کی وجہ سے اور طلب علم برقرار رکھنے کی وجہ سے انہیں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے لیے اللہ مجدہ نے بھیجا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:صاحبزادہ بدر عالم جان

Print Date : 16 April, 2024 04:46:50 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/869/