Fatwa Online

مسلمان عورت کا اہل کتاب مرد سے شادی کرنے کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:6195

السلام علیکم مفتی صاحب! قرآنِ مجید کے مطابق مسلمان مردوں کو اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے، لیکن قرآنِ مجید نے مسلمان عورتوں کے اہل کتاب مردوں سے نکاح کے متعلق سکوت اختیار کیا ہے، اور اس سلسلے میں جواز یا ممانعت سے متعلق قرآنِ مجید سے ہمیں واضح حکم نہیں ملتا۔ تو کیا قرآنِ مجید کی اس خاموشی کو اباحت کی دلیل سمجھا جائے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: علی فرحان

  • تاریخ اشاعت: 12 مئی 2025ء

موضوع:بغیر زمرہ  |  اہل کتاب اور کافرہ سے نکاح

جواب:

مسلمان عورت کا نکاح کسی بھی غیر مسلم مرد سے کرنا حلال نہیں ہے کیونکہ شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات میں نکاح کو محض ایک سماجی معاہدہ نہیں بلکہ ایک عظیم شرعی اور دینی بندھن قرار دیا گیا ہے، جو ایمان و عقیدہ کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے مسلمان مرد و عورت کی ازدواجی زندگی کو کفریہ اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے مخصوص احکام عطا فرمائے ہیں۔ بالخصوص مسلمان عورت کا نکاح کسی بھی قسم کے کافر، خواہ وہ اہلِ کتاب ہوں یا غیر اہلِ کتاب، کے ساتھ منع فرمایا ہے، کیونکہ عورت اپنے شوہر کے زیرِ اثر اور اس کے دین و معاشرت سے متأثر ہونے کا زیادہ امکان رکھتی ہے۔ قرآنِ مجید کی متعدد آیات اور اکابر مفسرین کے اجماعی اقوال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مومنہ عورت کافر مرد کے لیے کسی صورت حلال نہیں ہے۔ یہی حکمِ الٰہی ہے، جو اپنے بندوں کے لیے سراپا رحمت اور حکمت پر مبنی ہے، اور یہی حکم ابدی فلاح اور عقیدہ کی حفاظت کا ضامن ہے۔ اس مسئلہ میں کوئی تاویل، مصلحت یا زمانی تغیر شریعت کے قطعی اور منصوص احکام کے مقابل معتبر نہیں۔ لہٰذا مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح ہر صورت ناجائز و حرام ہے، خواہ وہ کسی بھی دین یا ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ وَآتُوهُمْ مَا أَنْفَقُوا.

’’اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو انہیں اچھی طرح جانچ لیا کرو، اللہ اُن کے ایمان (کی حقیقت) سے خوب آگاہ ہے، پھر اگر تمہیں اُن کے مومن ہونے کا یقین ہو جائے تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو، نہ یہ (مومنات) اُن (کافروں) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ (کفّار) اِن (مومن عورتوں) کے لیے حلال ہیں۔‘‘

1. الممتحنة، 60: 10

مذکورۃ الصدر آیت مبارکہ سے واضح ہے کہ مومن عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں یعنی مسلمان عورت غیرمسلم سے نکاح نہیں کر سکتی، یہی فتویٰ ہے۔ سورۃ البقرہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کا نکاح غیر مسلم کے ساتھ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ.

’’اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے، وہ (کافر اور مشرک) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنی آیتیں لوگوں کے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘

2. البقرة، 2: 221

لہٰذا مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے، خواہ وہ غیر مسلم اہلِ کتاب ہو یا مشرک، جب تک وہ اسلام قبول نہ کرے۔ یہ ممانعت قطعی ہے اور قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ مشرک مردوں سے مسلمان عورتوں کا نکاح نہ کیا جائے جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ علامہ محمد بن جریر طبری سورۃ البقرہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

يَعْنِي تَعَالَى ذِكْرُهُ بِذَلِكَ: أَنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى الْمُؤْمِنَاتِ أَنْ يَنْكِحْنَ مُشْرِكًا، كَائِنًا مَنْ كَانَ الْمُشْرِكُ مِنْ أَيِّ أَصْنَافِ الشِّرْكِ كَانَ. فَلَا تُنْكِحُوهُنَّ أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ مِنْهُمْ فَإِنَّ ذَلِكَ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ، وَلَأَنْ تُزَوِّجُوهُنَّ مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ مُصَدِّقٍ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، وَبِمَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تُزَوِّجُوهُنَّ مِنْ حُرٍّ مُشْرِكٍ وَلَوْ شَرُفَ نَسَبُهُ وَكَرُمَ أَصْلُهُ، وَإِنْ أَعْجَبَكُمْ حَسَبُهُ، وَنَسَبُهُ.

’’اللہ تعالیٰ کا مقصود اس سے یہ ہے کہ اس نے مومن عورتوں پر یہ بات حرام کر دی ہے کہ وہ کسی مشرک سے نکاح کریں، خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور اس میں جس نوعیت کا شرک بھی پایا جاتا ہو، اس لیے اے جماعتِ مومنین! تم ان عورتوں کا نکاح ان مشرک مردوں سے نہ کرو، کیوں کہ ایسا کرنا تم پر حرام ہے۔ان کا نکاح تم اللہ ، اس کے رسول اور اس کی طرف سے لائی گئی وحی پر ایمان رکھنے والے مومن غلام سے کرو، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کا نکاح کسی آزاد مشرک سے کر ڈالو؛ اگرچہ اس کا حسب و نسب اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو اور اس کی خاندانی نسبت اور حسن وجمال تم کو متاثر ہی کیوں نہ کرے۔‘‘

3. الطبري، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، 2: 379، بيروت: دار الفكر

قرآن مجید میں صراحت آ جانے کے بعد مسلمان عورتوں کو ضرورت نہیں ہے کہ غیر مسلم سے نکاح کا کوئی جواز تلاش کریں، صرف حکم الہٰی کافی ہے۔ مسلمان لڑکی کے غیر مسلم سے نکاح کے عدم جواز پر دلالت کرنے والی ایک روایت جس کو مفسرین کی کثیر تعداد نے نقل کیا ہے درج ذیل ہے:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَتَزَوَّجُ نِسَاءَ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا يَتَزَوَّجُونَ نِسَاءَنَا.

’’حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ارشاد فرمایا: ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکن وہ ہماری عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے۔‘‘

4. الطبري، جامع البيان عن تأويل آي القرآن، 2: 378

5. الرازي، التفسير الكبير، 6: 50، بيروت: دار الكتب العلمية

6. السيوطي، الدر المنثور، 3: 25، بيروت: دار الفكر

فوق الذکر نصوصِ قطعیہ سے نہایت واضح طور پر یہ حکم ثابت ہوتا ہے کہ کسی مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح، شریعتِ مطہرہ کی رو سے نہ صرف ناجائز بلکہ شرعاً باطل و غیر معتبر ہے۔ اس ضمن میں یہ کہنا کہ شریعت نے اس معاملے میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا یا یہ مسئلہ دائرۂ سکوتِ شرعی میں آتا ہے، محض بے بنیاد و غیر علمی دعویٰ ہے، جو نہ صرف نصوصِ قرآنیہ کی صراحت سے ناواقفیت کا مظہر ہے بلکہ علمی دیانت کے خلاف بھی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ اور سورۃ الممتحنہ میں غیر مسلم مردوں سے مسلمان عورتوں کے نکاح کو صریح الفاظ میں ممنوع قرار دیا ہے، تو ایسی صورت میں اس مسئلے میں کسی احتمالی رخصت، تاویل یا اجتہادی گنجائش کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ چونکہ یہاں نص قطعی وارد ہو چکی ہے، اس لیے یہ حکم قابلِ نسخ یا تغیر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے قطعی منصوص مسئلے میں 'شریعت کی خاموشی' کا دعویٰ کرنا نہ صرف دینی و فقہی خیانت کے مترادف ہے بلکہ حدودِ شرع سے تجاوز بھی شمار ہوگا، جو موجبِ فتنہ و گمراہی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 26 June, 2025 09:47:07 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6195/