جواب:
جواب: اگر طلاق نامہ پر دستخط کرتے وقت آپ کی سمجھ بوجھ قائم نہیں تھی اور آپ کو واقعی معلوم نہیں تھا کہ طلاق پر دستخط کروا رہے ہیں تو ایسی صورت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
جیسا کہ ارشادِ نبوی ﷺ سے ثابت ہے:
بچہ سمجھدار ہونے تک، سونے والا بیدار ہونے تک اور مجنوں عقلمند ہونے تک شریعت کے مکلف نہیں ہوتا۔
عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّی یَحْتَلِمَ وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّی یَعْقِلَ.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے۔ بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک عقلمند نہ ہو جائے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، ١: ١١٨، الرقم: ٩٥٦، مصر: مؤسسة قرطبة.
2. أبي داود، السنن، كتاب الحدود، باب في المجنون يسرق أو يصيب حدا، ٤: ١٤١، الرقم: ٤٤٠٣، بیروت: دار الفكر.
3. الترمذي، السنن، كتاب الحدود، باب ما جاء فيمن لا يجب عليه الحد، ٤: ٣٢، الرقم: ١٤٢٣، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي.
عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا أَنَّ رَسُولَ ﷲِ ﷺ قَالَ: رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّی یَسْتَیْقِظَ وَعَنِ الْمُبْتَلَی حَتَّی یَبْرَأَ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّی یَكْبُرَ.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایک سوئے ہوئے سے جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ دوسرے دیوانے سے جب تک دیوانگی نہ جائے۔ تیسرے بچے سے جب تک بالغ نہ ہوجائے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، ٦: ١٤٤، الرقم: ٢٥١٥٧
2. أبي داود، السنن، كتاب الحدود، باب في المجنون يسرق أو يصيب حدا، ٤: ١٣٩، الرقم: ٤٣٩٨
3. ابن ماجه، السنن، كتاب الطلاق، باب طلاق المعتوه والصغير والنائم، ١: ٦٥٨، الرقم: ٢٠٤١، بیروت: دار الفكر
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ محدثین کی کثیر تعداد نے نقل کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ ﷲ ترجمۃ الباب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کرتے ہیں:
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ: طَلاَقُ السَّكْرَانِ وَالمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مدہوش اور مجبور کی طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘
4. البخاري، الصحیح، كتاب الطلاق، باب الطلاق في الإغلاق والكره والسكران والمجنون، ٥: ٢٠١٨، بیروت، لبنان: دار ابن كثیر الیمامة
فقہاء کرام کے نزدیک جنون میں دی جانے والی طلاق کی حیثیت درج ذیل ہے:
وَأَرَادَ بِالْمَجْنُونِ مَنْ فِيْ عَقْلِهِ اخْتِلَالٌ، فَیَدْخُلُ الْمَعْتُوهُ وَأَحْسَنُ الْأَقْوَالِ فِيْ الْفَرْقِ بَیْنَهُمَا أَنَّ الْمَعْتُوهَ هُوَ الْقَلِیلُ الْفَهْمِ الْمُخْتَلِطُ الْكَلَامِ الْفَاسِدُ التَّدْبِیرِ لَكِنْ لَا یَضْرِبُ وَلَا یَشْتُمُ بِخِلَافِ الْمَجْنُونِ وَیَدْخُلُ الْمُبَرْسَمُ، وَالْمُغْمَی عَلَیْهِ وَالْمَدْهُوشُ.
’’جنون (پاگل پن) کا مطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی و خلل آنا، اس میں معتوہ شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کا مطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگو میں غلط اور صحیح خلط ملط ہو لیکن معتوہ (مغلوب الغضب) نہ مارتا ہے نہ گالی گلوچ بکتا ہے، بخلاف مجنوں (پاگل) کے اس میں سرسام والا، بیہوش اور مدہوش داخل ہیں۔‘‘
5. ابن نجیم الحنفی، البحرالرائق، ٣: ٢٦٨، بیروت: دارالمعرفة.
یعنی مجنوں ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جس کی عقل میں مکمل خلل واقع ہو، اور اس میں وہ افراد شامل ہیں جو بیہوش، مدہوش یا سرسام کے مرض میں مبتلا ہوں۔ اور معتوہ وہ شخص ہے جس کی عقل کمزور ہو، بات چیت میں الجھن ہو، فہم و تدبیر میں خرابی ہو، لیکن وہ دوسروں کو مارتا یا گالیاں نہیں دیتا، جبکہ مجنون میں یہ افعال پائے جا سکتے ہیں۔ اس فقہی تفریق کا اثر احکامِ شریعت جیسے کہ عبادات، معاملات اور حدود کے اطلاق پر ہوتا ہے، کیونکہ عقل کی کمی یا خرابی احکامِ شرعیہ کی ذمہ داری کے سقوط یا تخفیف کا باعث بنتی ہے۔
فَاَلَّذِيْ یَنْبَغِيَ التَّعْوِیلُ عَلَیْهِ فِيْ الْمَدْهُوشِ وَنَحْوِهِ إنَاطَةُ الْحُكْمِ بِغَلَبَةِ الْخَلَلِ فِيْ أَقْوَالِهِ وَأَفْعَالِهِ الْخَارِجَةِ عَنْ عَادَتِهِ، وَكَذَا یُقَالُ فِیمَنْ اخْتَلَّ عَقْلُهُ لِكِبَرٍ أَوْ لِمَرَضٍ أَوْ لِمُصِیبَةٍ فَاجَأَتْهُ: فَمَا دَامَ فِيْ حَالِ غَلَبَةِ الْخَلَلِ فِيْ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ لَا تُعْتَبَرُ أَقْوَالُهُ وَإِنْ كَانَ یَعْلَمُهَا وَیُرِیدُهَا لِأَنَّ هَذِہِ الْمَعْرِفَةَ وَالْإِرَادَةَ غَیْرُ مُعْتَبَرَةٍ لِعَدَمِ حُصُولِهَا عَنْ الْإِدْرَاكِ صَحِیْحٌ كَمَا لَا تُعْتَبَرُ مِنْ الصَّبِیِّ الْعَاقِلِ.
’’مدہوش وغیرہ کی قابل اعتمادبات یہ ہے کہ اس صورت میں حکم شرعی کا مدار اس کے اقوال و افعال میں عادت سے ہٹ کر اور اس کے خلاف بیہودگی و خرابی پائی جانے سے ہے یوں جس کی عقل میں بڑھاپے، بیماری اور کسی اچانک مصیبت کی بنا پر خلل آ جائے تو اس کے اقوال وافعال پر جب تک یہ کیفیت غالب رہے گی، اس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو گا۔ اگرچہ ان کو جانتا ہو اور ان کا ارادہ کرے کیونکہ یہ جاننا اور ارادہ کرنا معتبر نہیں اس لیے کہ ادراک صحیح سے حاصل نہیں ہوا جیسے عقلمند بچے کی بات کا اعتبار
6. ابن عابدین، ردالمحتار، ٣: ٢٤٤، بیروت: دارالفكرللطباعةوالنشر
7. الكاساني، بدائع الصنائع، ٣: ١٠٠، بیروت: دار الكتاب العربي
8. المرغیناني، الهدایة شرح البداية، ٤: ١٨٨، المكتبة الإسلامیة
اس صورت میں دستخط کروا لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی، لہذا یاسر خان سے کیا ہوا نکاح سرے سے منعقد نہیں ہوا۔
کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے:
وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں)۔
(النساء، 4: 24)
لہذا یاسر خان کے ساتھ نکاح باطل شمار کیا جائے گا اور باطل نکاح کے بعد نہ تو طلاق ہوتی ہے نہ ہی عدت کی ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن اگر جسمانی تعلق قائم ہوا ہے تو احتیاطاً عدت پوری کرلیں تاکہ رحم کا خالی ہونا بھی معلوم ہوجائے اور دیگر حکمتیں بھی پوری ہو جائیں۔ اس طرح آپ اسے بغیر نکاح کے واپس لا سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا کے برعکس اگر آپ طلاق دیتے وقت عقل و شعور میں تھے تو ایسی صورت میں آپ کے دستخط کرنے سے طلاق واقع ہوگئی تھی۔ اور آپ کا نکاح ختم ہو گیا تھا۔ اور اس صورت میں یاسر خان کا نکاح جائز تھا کیونکہ خلوتِ صحیحہ (رخصتی) سے پہلے طلاق دینے سے مطلقہ پر عدت واجب نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا.
’’اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو‘‘ ۔
(الاحزاب، 33: 49)
پہلی صورت میں سرے سے طلاق واقع نہیں ہوئی اس لیے دوبارہ نکاح کیے بغیر آپ اسے واپس لا سکتے ہیں۔
دوسری صورت میں واپس لانے کے لیے عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنا لازم ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔