Fatwa Online

علم لدنی کیا ہے اور کیا اس کا حصول ممکن ہے؟

سوال نمبر:6135

علم وہبی یا لدنی میں اور علم فیضی میں کیا فرق ہے اور کیا علم لدنی اللہ تعالی کے کسی خاص بندے کو حاصل ہوسکتا ہے کہ نہیں؟ اگر ہوسکتا ہے تو کیفیت کیا ہوتی ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: عبداللہ

  • مقام: افغانستان
  • تاریخ اشاعت: 18 جنوری 2023ء

موضوع:علومِ قرآن

جواب:

علم بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں:

ایک وہ علم ہے جو بندہ اپنی کوشش، محنت اور استاد سے سیکھتا ہے، اسے کسبی علم کہتے ہیں

دوسرا دو علم ہے جو بغیر کسی خارجی سبب کے مِن جانب اللہ خود بخود قلب پر اترتا ہے، اسے علم لدُنّی یا علم وہبی، عطائی اور علم ربانی کہا جاتا ہے۔ امام القاشانی لکھتے ہیں:

یُرَادُ بِهِ الْعِلْمُ الْحَاصِلُ مِنْ غَیْرِ کَسْبٍ، وَلَا تَعَمُّلَ لِلْعَبْدِ فِیْهِ. سُمِّیَ لَدُنِّیًّا لِکَوْنِهٖ إِنَّمَا یُحْصَلُ مِنْ لَدُنْ رَبِّنَا، لَا مِنْ کَسْبِنَا.

القاشانی، لطائف الإعلام فی إشارات أهل الأعلام: 323

اِس سے مراد وہ علم ہے جو بغیر ریاضت و مجاہدہ کے حاصل ہو اور انسان کو اس کے لیے تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ اسے لدنی اِسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور ہماری محنت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

امام غزالیؒ نے علمِ لدُنّی کی تعریف اس طرح بیان کی ہے کہ:

وہ علم جس کا ظہور کسی خارجی سبب کے بغیر دل پر ہوتا ہے۔

(غزالی، احیاء العلوم، 3: 30

علم لدنی کو علم الحقیقتہ اور علم الباطن بھی کہتے ہیں۔ قرآن مجید سے علمِ لدنی کا اثبات کیلئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ سے استدلال کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo

الکهف، 18: 65

تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام ) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔

علماء کے نزدیک یہ آیت علم لدنی کے اثبات میں اصل ہے۔ علمِ لدنّی کی بہت سی قسمیں ہیں جیسے وحی، الہام، کشف، القاء، مبشرات اور فراست وغیرہ۔ وحی تو انبیاءکرام علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے، الہام اور کشف صلحاء و اولیاءاللہ کیلئے ساتھ خاص ہے جبکہ فراست ہر بندۂ مومن کو بقدرِ ایمان ملتی ہے۔ انبیاءکرام علیہم کی وحی غلطی سے مبرا ہوتی ہے، اس میں کسی نقص کا گمان کرنا یا اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ الہام، کشف، القاء، مبشرات اور فراست اس کا اعتبار مشروط ہوتا ہے، یہ تب ہی معتبر ہیں جب خلافِ شرع نہ ہوں، اگر خلاف شرع ہوں غیرمعتبر ہوں گے۔ علمِ لدنی وہ علم ہے جو بغیر ذرائع اور وسائط کے براہِ راست اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں القاء کرتا ہے۔ علمِ لدنی بغیر واسطے کے براہِ راست مردِ عارف، مردِ مومن کے قلب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ وہبِ خالص ہوتا ہے اور اس میں فرشتہ بھی دخیل (involve) نہیں ہوتا یعنی اللہ اور بندے کے قلب کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علمِ لدنی کا اِجراء جاری و ساری ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

کُلًّا نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَآءِ وَھٰٓؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ ط وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًاo

الإسراء، 17: 20

ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے۔

مزید فرمایا:

وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًاo

الإسراء، 17: 20

اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لیے) ممنوع اور بند نہیں ہے۔

یعنی آپ کے ربّ کی جانب سے نبوت کے سوا بقیہ تمام عطاؤں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ صرف نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کے منصب پر فائز فرمایا گیا ہے:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ.

الأحزاب، 33: 40

محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں۔

مالکِ کون و مکاں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم المرسلین بناتے ہوئے نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس اَمر کے لیے حکم فرمایا کہ یہ دروازہ بند کر دیا، پس وہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا؛ اور اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں کی عطا جاری رکھی ہے اور اُس کے بند ہو جانے کا واضح حکم نہیں آیا۔ علم اور معارف کے یہ سارے راستے اُسی طرح کھلے رہیں گے، جیسا کہ پہلے کھلے تھے۔ اللہ تعالیٰ جس زمانے کے جس بندے کو چاہے گا، وہ عطا فرمائے گا۔ عین اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ نے کسی بھی زمانے کے لوگوں پر حواسِ خمسہ بند نہیں کیے۔ جیسے کل قوتِ سامعہ، باصرہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ تھی، یہ سب آج بھی بدستور موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح پہلے دماغ کی حسِ مشترک، حسِ خیال، حسِ واہمہ، حسِ حافظہ، حسِ متصرفہ دی تھی اور دماغ کے جو قویٰ دیے تھے وہ آج بھی لوگوں کو ملتے ہیں۔ اِسی طرح روحانی ذرائع اور نفس پر ورود و کیفیات کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اِسی طرح جن چیزوں سے مکاشفہ ہوتا تھا، وہ اب بھی ہوتا ہے اور اسی طرح ہوتا رہے گا۔ مالکِ ارض و سماوات اپنے بندوں کو علمِ لدنی عطا کرتا تھا، کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس کے بند ہونے پر قرآن کی نص نہیں آئی۔ اُس کا مطلب ہے کہ وہ سب وَمَا کَانَ عَطَآئُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا کے کلیہ کے تحت آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ عطا اور نعمت بند نہیں ہوئی۔ یہ جیسے جاری تھی، ویسے ہی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔

علمِ لدُنی کی مزید ابحاث پڑھنے کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’علم اور مصادر علم‘ کا مطالعہ کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 20 April, 2024 06:32:52 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/6135/