Fatwa Online

ورثاء میں تین بیٹے اور بیوہ ہیں، وراثت کی تقسیم کیا ہوگی؟

سوال نمبر:5934

مفتیان صاحبان السلام علیکم و رحمتہ اللہ! جناب آپ سے چند گزارشات پر گراں قدر آراء مطلوب ہیں۔ میرے والد صاحب مورخہ 2 اکتوبر 2020 کو رضائے الٰہی سے رحلت فرما چکے ہیں۔ انھوں نے دو شادیاں کیں۔ انکی پہلی بیوی کا انتقال 1990 میں ہوا جن سے مجھ سمیت تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، جن میں سے ایک بیٹی وفات پا چکی ہیں، باقی چار بچے حیات ہیں۔ مرحوم کی دوسری بیوی حیات ہیں اور ان سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ آپ علماء اکرام سے شریعت کے مطابق چند درپیش سوالات کے جوابات کا طلب ہوں۔ (1) شرعی لحاظ سے ہم تین بھائی جو شادی شدہ ہیں اپنی سوتیلی والدہ کے محرم ہیں یا نہیں؟ کیا وہ ہمارے ساتھ رہ سکتی ہیں ( ابھی وہ عدت میں ہیں)۔ (2) ہمارے مرحوم والد پینشن وصول کرتے تھے اور آخری دن تک پرائیویٹ جاب بھی کرتے رہے ہیں تو کیا ان کی تدفین کا خرچہ ان ہی کی کمائی سے ہونا چاہیے تھا یا اگر بیٹے یا اور کسی عزیز نے کیا ہے تو اس کے لیے کیا احکام ہیں؟ (3) ہماری سوتیلی والدہ عدت کے دوران اپنی حقیقی بہن کے پاس رہنے کے غرض سے چلی گئی ہیں اور اب وہ تمام سامان جو ان کے کمرے میں تھا منگانا چاہتی ہیں، جس میں اے سی، ٹی وی، الماریاں، بیڈ، برتنوں کا شوکیس وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ وہ تمام چیزیں ہمارے والد کی کمائی سے خریدی گئی ہیں تو اس سلسلے میں شرعی ترکہ کی تقسیم کس طرح کی جاسکتی ہے؟ (4) ان چیزوں کے علاوہ والد صاحب نے کے نام ایک مہران گاڑی بھی تھی جسے تین لاکھ میں والد کے انتقال کے بعد بیچا گیا ہے- واضح رہے کہ والد صاحب نے اس گاڑی سے پہلی ایک گاڑی لی تھی جو 70 ہزار نقصان پر فروخت ہوئی تھی. ہماری دوسری والدہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اُس گاڑی کے لیے دو لاکھ دیے تھے تاہم کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں ہے۔ کیا اس میں سے ان کو ملے گا یا نہیں؟ آپ جناب سے گزارش ہے کہ ان چیزوں اور پیسوں کے بارے میں ترکہ کی تقسیم کے شرعی طریقہ کار اور احکام سے ہماری رہنمائی کریں۔ ہمارے والد کی دوسری بیوی (بیوہ) جو خود بھی اپنی حقیقی بہن اور بھانجی کے پاس رہنے کی خواہش رکھتی ہیں تو کیا ہم انہیں اپنے پاس رکھ سکتے ہیں؟ معزز علماء اکرام آپ سے التماس ہے کہ درج بالا معاملات میں دینی/شرعی احکامات مطلوب ہیں تاکہ کسی سے کسی بھی قسم کی زیادتی نہ ہو سکے۔

سوال پوچھنے والے کا نام: راحیل انجم

  • مقام: جی الیون فور اسلام آباد
  • تاریخ اشاعت: 19 جنوری 2021ء

موضوع:تقسیمِ وراثت

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ والد، دادا اور اسی طرح اوپر جتنے بھی صُلبی رشتے ہیں ان کی منکوحات نیچے والے صُلبی رشتوں کے لیے محرمات ہیں ان کے ساتھ نکاح حرام ہے۔ قرآنِ مجید میں للہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلاً.

اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں مگر جو (اس حکم سے پہلے) گزر چکا (وہ معاف ہے)، بیشک یہ بڑی بے حیائی اور غضب (کا باعث) ہے اور بہت بری روِش ہے۔

النساء، 4: 22

اس لیے سوتیلی ماں محرم ہے، اس کے ساتھ نکاح حرام ہے اور وہ سوتیلی اولاد کے ساتھ رہ سکتی ہے۔

2۔ فوت شدہ کے ترکہ سے اولاً اس کے کفن دفن پر اٹھنے والے اخراجات منہاء کیے جاتے ہیں، اس کے بعد قرض (اگر ہو تو) کی ادائیگی اور وصیت (اگر کی ہو تو) پوری کرنے کے بعد ترکہ ورثاء میں تقسیم ہوتا ہے۔ اگر کسی وارث نے کفن و دفن کے اخراجات برضا و رغبت اپنی طرف سے کر دیئے ہیں اور وہ واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کر رہا تو جائز ہے۔ اگر وہ اِن اخراجات کی واپسی کا مطالبہ کرے تو ترکہ میں سب سے پہلے یہ اخراجات ادا کیئے جائیں گے، بقیہ کُل قابلِ تقسیم ترکہ ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

3۔ موحوم کی بیوی کل قابلِ تقسیم ترکہ میں آٹھویں (1/8) حصے کی حقدار ہے، قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔

النساء، 4: 12

مذکورہ آیتِ مبارکہ کے مطابق مرحوم کی بیوہ کل قابلِ تقسیم ترکہ میں سے آٹھویں حصے کی حقدار ہے اور باقی ترکہ مرحوم کی اولاد میں تقسیم ہوگا۔ جو جائیداد یا اشیاء مرحوم نے اپنی زندگی میں بیوی کو یا کسی بیٹے کو ہبہ کر کے ان کی ملکیت میں دے دی ہیں وہ ترکہ میں شامل نہیں ہوں گی اور نہ ان سے واپس لی جائیں گی۔

4۔ اگر مرحوم کی بیوہ کا یہ دعویٰ درست ہے کہ گاڑی خریدتے وقت دو لاکھ روپے اس نے ادا کیے تھے، تو یہ ایک طرح کا قرض ہے جو اُس نے گاڑی خریدنے کے لیے شوہر کو دیا تھا۔ اس صورت میں مرحوم ترکہ سے بیوہ کو اس کے حصے کے علاوہ قرض کی ادائیگی بھی کی جائے گی۔ مگر یہ تب ہوگا جب بیوہ کوئی تحریر ثبوت پیش کرے یا گواہ لائے، ورنہ اس کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جائے گا، اور بیوہ کو صرف آٹھواں حصہ ملے گا۔ وہ چاہے تو والدین کے ساتھ زندگی گزارے یا مرحوم کی اولاد کے ساتھ رہائش پذیر رہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 25 April, 2024 06:48:10 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5934/