Fatwa Online

مسجد کی دیواروں پر عبارات لکھنے کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر:5915

السلام علیکم مفتی صاحب! مسجد کی دیوار پر ایک تحریر لکھی ہوئی ہے جس میں درج ہے کہ ’درود پاک اللھم صلی علیٰ محمد النبی الامی و علیٰ آلہ وسلم، جمعہ کو عصر کی نماز کے بعد 80 مرتبہ پڑھنے سے 80 سال کے گناہ معاف کر دیجئے جاتے ہیں۔ اس عبارت کے دو فریم جن کی لمبائی چوڑائی 2 بائی 3 فُٹ ہے مسجد کی صدر دیوار پر 12 فُٹ کی بلندی پر پیش امام کے سامنے لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی دیوار پر چار قل بھی لگے ہوئے ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ مساجد کے ہال سادہ ہوتے ہیں یا ان پر کلمہ طیبہ، اسماء الحسنیٰ یا قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں۔ جن کا مقصد صرف اسلامی خطاطی کی عکاسی کرنا ہوتا ہے ناکہ یہ کوئی شرعی فرض ہے۔ میں نے علماء سے سن رکھا ہے کہ مساجد اسی طرح سادہ ہونی چاہیئں جیسی رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانہ میں مسجد نبوی تھی۔ میں نے کئی مساجد میں نماز ادا کی ہے، لیکن کسی مسجد میں پیش امام کے سامنے ایسے ضعیف اقوال نہیں دیکھے کہ فلاں درود اتنی بار پڑھنے سے 80 سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں بھی کلمہ طیبہ، اللہ اکبر اور دیگر کلمات لکھے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی شے بھی پیش امام کے سامنے نہیں لکھی ہوتی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مسجد کی صدر دیوار پر سوائے کلمہ طیبہ، اسماء الحسنیٰ یا قرآنی آیات کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔ اور ایسی عبارات تو بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے جو ذرا بھی مشتبہ ہوں۔ اس سلسلے میں آپ کیا راہنمائی کرتے ہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام: سید شہمات علی شاہ

  • مقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 16 جنوری 2021ء

موضوع:مسجد کے احکام و آداب

جواب:

مسجد کی دیواروں پر قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ یا درود و سلام لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ جن فقہاء کرام نے مساجد کی دیواروں پر لکھنے سے منع کیا ہے ان کا مقصد دیوار گرنے یا رنگ اتر کر نیچے گرنے سے بےادبی ہونے سے بچانا ہے۔ دورِ حاضر میں دیواریں پکی ہوتی ہیں اور لکھائی بھی سنگِ مرمر یا پتھر کی ٹائلوں پر ہوتی ہے اس لیے بےادبی کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوں بےادبی کا احتمال نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی دیوار پر لکھنے کی گنجائش ہے، مگر منگھڑت روایات اور موضوع اقوال جن کی کوئی اصل نہ ہو‘ انہیں مسجد کی دیواروں پر لکھنا اور لکھوانا قابلِ مذمت ہے جس کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ مسجد انتظامیہ اور اہلِ علم کا فرض ہے کہ مسجد کو علم و تحقیق کا گہوارہ بنائیں جہاں سے عام مسلمان کو علمی و تحقیقی مواد میسر ہو نہ کہ من گھڑت اقوال جو خود بےاصل ہوں۔

محراب اور سمتِ قبلہ کی دیوار کے جتنے حصے تک نمازی کی سیدھی نظر نماز کی حالت میں جاسکتی ہے، اتنے حصے پر نقش و نگار بنانا یا کوئی عبارت لکھنا پسندیدہ نہیں ہے، کیونکہ ان سے نماز میں دھیان بٹتا ہے۔ مسجد ہال کی اندرونی دائیں اور بائیں دیواروں پر قرآنی آیات، اسماء الحسنیٰ، اسمائے نبوی ﷺ، منسون دعائیں اور مسجد کے احترام اور اخلاقِ حسنہ کے متعلق احادیثِ صحیحہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 19 April, 2024 03:48:40 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5915/