Fatwa Online

کیا جسم کا کوئی عضو کاٹنا خدا کی امانت میں‌ خیانت ہے؟

سوال نمبر:5321

شوگر کی وجہ سے ڈاکٹر پاؤں اور کچھ وقت بعد ہاتھ کی انگلیاں کاٹ لیتے ہیں۔ کیا یہ خیانت نہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد کاشف ذیشان سہروردی

  • مقام: یو اے ای
  • تاریخ اشاعت: 22 اپریل 2019ء

موضوع:اعضاء کی پیوندکاری

جواب:

کسی بھی بیماری کی وجہ سے مجبوراً آپریشن کرنے یا کسی عضو کو کاٹ کر جسم سے الگ کرنے کا مقصد انسان کی جان بچانا ہو تو جائز ہے کیونکہ علاج و معالجہ انسان کی بہتری کے لیے ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود علاج کی خاطر پچھنے لگوائے۔ ایک روایت میں حضرت حمید الطویل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حجام کی مزدوری کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَجَمَهُ أَبُو طَيْبَةَ، وَأَعْطَاهُ صَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ، وَكَلَّمَ مَوَالِيَهُ فَخَفَّفُوا عَنْهُ، وَقَالَ: إِنَّ أَمْثَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ الحِجَامَةُ، وَالقُسْطُ البَحْرِيُّ، وَقَالَ: لاَ تُعَذِّبُوا صِبْيَانَكُمْ بِالْغَمْزِ مِنَ العُذْرَةِ، وَعَلَيْكُمْ بِالقُسْطِ.

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پچھنے لگوائے اور ابو طیبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پچھنے لگائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دو صاع اناج مرحمت فرمایا اور اس کے مالکوں سے گفتگو کی تو انہوں نے اس کے کام میں تخفیف کردی۔ نیز فرمایا کہ جن چیزوں کے ساتھ تم علاج کرتے ہو ان میں بہترین پچھنے لگوانا اور قسط بحری کا استعمال ہے اور اپنے بچوں کو گلے دبا کر تکلیف نہ دیا کرو اور قسط کو ضرور استعمال کیا کرو۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب الطب، باب الحجامة من الداء، 5: 2156، رقم: 5371، بيروت: دار ابن کثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب المساقاة، باب حل أجرة الحجامة، 3: 1204، رقم: 1577، بيروت: دار احياء التراث العربي

اس لیے مستند ڈاکٹر اگر مریض کے ورثاء کی اجازت سے بہتر علاج و معالجہ اور مریض کی جان بچانے کی خاطر اور مرض کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے کسی مریض کی انگلیاں، ہاتھ، پاؤں یا کوئی بھی عضو کاٹ دیں تو اس پر شرعاً کوئی حرج نہیں۔ یہ خیانت نہیں، بلکہ انسان کی جان بچانے کی کوشش ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 20 April, 2024 11:35:04 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/5321/