Fatwa Online

نماز باجماعت معاشرتی زندگی کی اصلاح کے لیے کیا کردار ادا کرتی ہے؟

سوال نمبر:494

نماز باجماعت کے فلسفے سے اجتماعیت کے وہ کون سے اصول ہیں جن کو اپنانے سے معاشرے کی اصلاح احسن طریقے سے ہو سکتی ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:

  • تاریخ اشاعت: 27 جنوری 2011ء

موضوع:نمازِ باجماعت کے احکام و مسائل

جواب:

نماز باجماعت کے فلسفے کے درج ذیل پانچ اصول ہیں جن کو اپنانے سے معاشرے کی اصلاح احسن طریقے سے ہو سکتی ہے :

1۔ خاتمہ انتشار

اسلام میں اجتماعیت کا تصور ملت کو ہر قسم کے انتشار اور بدنظمی سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت کا حوالہ دینا خالی از فائدہ نہ ہو گا۔

ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو لوگوں کو ٹولیوں کی صورت میں ادھر اُدھر بیٹھے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سرزنش کی اور متنبہ فرمایا کہ اگر تم اس طرح منتشر ہوگے تو تمہارے دل کبھی ایک دوسرے سے نہ مل سکیں گے۔

ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب من يستحب أن يلي الإمام فی الصف وکراهية التاخر، 1 : 260، رقم : 675

اس ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امتِ مسلمہ کو تعلیم ملتی ہے کہ وہ اپنی صفوں کو انتشار کی لعنت سے پاک رکھیں۔

2۔ فروغِ وحدت و استحکامِ ملت

اجتماعیت کا دوسرا اصول امت میں وحدتِ فکر و عمل اور اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے کا متقاضی ہے۔ مسجد میں صف بندی اور قبلہ رو ہونے سے یہی تعلیم ملتی ہے جس کے سانچے میں زندگی کو من حیث المجموع ڈھال لینے سے ملتِ اسلامیہ قوت و استحکام سے بہرہ ور ہو سکے گی۔

3۔ نظم و نسق کا لحاظ

اجتماعیت کا تیسرا اصول صرف اس پر موقوف نہیں کہ صف بندی کر کے بیٹھے رہیں بلکہ اس کی نتیجہ خیزی کے لیے لازمی و لابدی ہے کہ صفوں میں ترتیب و قرینہ کو ملحوظ رکھا جائے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

’’تم ایسی صفیں کیوں نہیں بناتے جیسے فرشتے اﷲ تعالیٰ کے سامنے بناتے ہیں۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! فرشتے اﷲ تعالیٰ کے سامنے کیسے صفیں بناتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’پہلی صف مکمل کرنے کے بعد دوسری صف بناتے ہیں اور درمیان میں جگہ نہیں چھوڑتے۔‘‘

ابن ماجه، السنن، کتاب اقامة الصلاة والسنة فيها، باب إقامة الصفوف، 1 : 532، 533، رقم : 992

مسجد کے اندر اور مسجد سے باہر نظم ونسق (discipline) کے اصول کا اطلاق امت کو متحد و منظم رکھنے اور اس کی شیرازہ بندی کے لیے اَز بس ضروری ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل ارشادِ ربانی :

وَاعْتَصِمُوْا بِجَبْلِ اﷲِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.

آل عمران، 3 : 103

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘

حرزِ جاں بنانے کے قابل ہے تاکہ باطل کے مقابلے میں اہلِ اسلام کی ہوا نہ اکھڑے اور اقوامِ عالم میں انہیں ننگ و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

4۔ تنظیم سازی

اجتماعیت کا چوتھا اصول تنظیم سازی ہے۔ جس طرح باجماعت نماز میں حکم ہے کہ جب تک صفِ اوّل مکمل نہ ہو دوسری صف نہ بنائی جائے اور صفوں میں حفظ مراتب کاخیال رکھا جائے یعنی پہلی صف میں عمر اور علمی مرتبہ کے اعتبار سے بڑے بڑے لوگ کھڑے ہوں اور دوسری صف میں وہ لوگ کھڑے ہوں جو درجے میں ان سے کم تر ہوں۔ آخری صف میں بچے اور اگر عورتیں بھی شاملِ جماعت ہو تو وہ سب پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔ اس اصول کا اطلاق نماز سے باہر عملی زندگی میں بھی بہمہ وجوہ ہوتا ہے۔ جس میں تنظیم کی اہمیت و افادیت ایک مسلمہ امر ہے۔

5۔ قیادت کی اہلیت

اجتماعیت کا پانچواں اصول قیادت کا چناؤ ہے۔ جس طرح نماز باجماعت کی امامت کے لیے شریعتِ مطہرہ نے کسی ایسے شخص کو امام مقرر کرنے کا حکم دیا ہے جو ان شرائط پر امکانی حد تک پورا اترتا ہو جنہیں کتب فقہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

امام چونکہ مفروض الاطاعت ہے اور اس کی تقلید لازم قرار دی گئی ہے لہٰذا بحیثیت امام اس شخص کی تقرری عمل میں لائی جائے جسے اپنے مقتدیوں پر برتری اور فوقیت حاصل ہو۔ امام کی اہلیت کا معیار اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر بیان ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِکِتَابِ اﷲِ تَعَالی، فَإِنْ کَانُوْا فِی الْقِرَأةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ کَانُوْا فِی السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ کَانُوْا فِی الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَکَبَرُهُمْ سِنًّا.

ترمذی، السنن، ابواب الصلاة، باب من أحق بالإمامة، 1 : 274، رقم : 235

’’قوم کی امامت وہ کرے گا جو ان میں سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہے اگر قرات قرآن میں سب برابری کا درجہ رکھتے ہوں تو پھر جو سب سے زیادہ عالمِ سنت ہو وہ امامت کرے۔ اس میں بھی سب برابر ہوں تو جو ہجرت میں سب سے مقدم ہو (وہ امامت کرے)، اس میں بھی سب برابر ہو ں تو جو عمر میں سب سے زیادہ ہو (وہ امامت کرے)۔‘‘

اس اصول سے بغیر کسی ابہام کے امتِ مسلمہ کے لیے یہ ضابطہ وضع کیا گیا ہے کہ اسے اپنا قائد کسی ایسے شخص کو منتخب کرنا چاہیے جو ہر لحاظ سے قیادت کا اہل اور مستحق ہو۔ ملت کے تشخص اور وجود کی بقا کا انحصار لازمی طور پر ایسے امیر اور قائد پر ہے جو مطلوبہ معیار پر پورا ترتا ہو۔ اس ضمن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد گرامی خصوصی توجہ چاہتا ہے :

لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ، وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ، وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ.

دارمی، السنن، 1 : 91، رقم : 251

’’جماعت کے بغیر اسلام کا کوئی وجود نہیں، اور بغیر کسی امیر کے جماعت کا کوئی وجود برقرار نہیں رہ سکتا، اور بغیر اطاعت اور حکم ماننے کے قائد کا کوئی وجود نہیں۔‘‘

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Print Date : 18 April, 2024 05:46:23 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/494/