Fatwa Online

کیا حکمت کا کورس کرنے والے شخص کا ایلوپیتھک ادویات سے علاج کرنا جائز ہے؟

سوال نمبر:4514

ایک شخص جس نے حکمت کا کورس کر رکھا ہو کیا اس کا ایلوپیتھک ادویات سے علاج کرنا اور انجکشن وغیرہ کا استعمال کروانا اسلامی لحاظ سے جائز ہے؟ اس سے حاصل ہونے والی کمائی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا ایسے بندے کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد طاہر

  • مقام: فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 25 نومبر 2017ء

موضوع:علاج و معالجہ

جواب:

اگر وہ شخص مستند حکیم ہے اور ایلوپیتھک ادویات کا بھی کوئی کورس کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنے دائرکار میں رہتے ہوئے علاج معالجہ کرتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ بغیر علم کے ادویات دے کر انسانی جانوں سے کھیلتا ہے تو سخت گنہگار اور اس کی کمائی بھی جائز نہیں ہے، تاہم اس کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی ممنوع نہیں ہے۔ کیونکہ اگر امام صحیح العقیدہ ہو یعنی انبیاء کرام، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار اور اولیاء ونیک صالحین کا گستاخ نہ ہو، چاہے گناہگار ہی ہو تو اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةُ الْمَكْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ.

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرض نماز لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے نیک ہو یا بد اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو۔

1. أبو داود، السنن، كتاب الصلاة، باب إمامة البر والفاجر، ، 1: 162، رقم: 594، بيروت: دارالفکر

ایک اور روایت میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ، بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَالصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ، وَالصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ.

سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پر جہاد فرض ہے ہر امیر کے ساتھ، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ تم پر نماز پڑھنا واجب ہے ہر مسلمان کے پیچھے، نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے۔ اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے نیک ہو خواہ برا گو گناہ کبیرہ کرے۔

  1. 2. أبو داود، السنن، كتاب الجهاد، باب في الغزو مع أئمة الجور، 3: 18، رقم: 2533
  2. بيهقی، السنن الکبری، 3: 121، رقم: 5083، مکه المکرمة: مکتبة دار الباز

امام علاءالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی حنفی فرماتے ہیں:

كُلُّ عَاقِلٍ مُسْلِمٍ، حَتَّى تَجُوزَ إمَامَةُ الْعَبْدِ، وَالْأَعْرَابِيِّ، وَالْأَعْمَى، وَوَلَدِ الزِّنَا وَالْفَاسِقِ، وَهَذَا قَوْلُ الْعَامَّةِ.

ہر عقلمند مسلمان کی امامت صحیح ہے۔ یہاں تک کہ غلام، دیہاتی، نابینا، حرامی اور فاسق کی امامت بھی عام علماء کے نزدیک صحیح ہے۔

4. کأساني، بدائع الصنائع، فصل وأما بيان من يصلح للإمامة في الجملة، 1: 156، بيروت: دار الکتاب العربي

اگر یہ شخص واقعی انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 24 April, 2024 12:46:00 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4514/