Fatwa Online

اگر کسی حدیث کو ایک عالم صحیح اور دوسرا ضعیف کہے تو اس حدیث کا کیا حکم ہوگا؟

سوال نمبر:4173

السلام علیکم مفتی صاحب! اگر کسی حدیث کو کچھ علماء صحیح، کچھ حسن اور کچھ ضعیف کہیں تو اس حدیث کا کیا حکم ہوگا؟

سوال پوچھنے والے کا نام: عمران سعید

  • مقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 05 اپریل 2017ء

موضوع:متفرق مسائل

جواب:

عربی ضرب المثل ہے کہ:

و ما آفة الاخبار الا رواتها.

خبروں کی آفت ان کے راوی ہیں۔

یہ ضرب المثل حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ کسی بھی خبر کی ثقاہت کا دار و مدار اس کے بیان کرنے والے کے کردار پر ہوتا ہے۔ اگر راوی صادق ہے تو اس کی خبر بھی سچی ہوگی، اور اگر راوی کاذب ہے تو اس کی روایت بھی غیرثقہ ہوگی۔ علمِ حدیث میں حدیث کے متن تک پہنچانے والے ناموں کے سلسلے کو سند یا سلسلہ رواۃ کہا جاتا ہے۔ حدیث کے صحیح، حسن اور ضعیف ہونے کا معیار انہی راویوں کی ثقاہت پر ہوتا ہے۔ حدیث کی سند میں راوی جتنے ثقہ ہوں گے حدیث بھی اتنے ہی بلند درجے کی ہوگی۔ علم الحدیث کی اصطلاحات میں سب سے اعلیٰ و بلند معیار کی حدیث الصحيح ہے۔الصحیح سے مراد وہ حدیث ہے جس میں قابل اعتماد اور احادیث کو محفوظ رکھنے والا راوی اپنے جیسے قابل اعتماد اور محفوظ رکھنے والے راوی سے کسی حدیث کو ملی ہوئی سند میں روایت کرتا ہے اور یہ سلسلہ آخر سند تک ایسے ہی چلا جاتا ہے۔ اس حدیث میں دیگر قابل اعتماد احادیث کے خلاف کوئی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اور خامی پائی جاتی ہے۔ حدیث میں ضعف اس کے راوی کی کمزوری کی وجہ سے آتا ہے، متنِ حدیث کی وجہ سے نہیں۔ اگر متن درست نہ ہو تو وہ حدیث نہیں ہوتی من گھڑت بات کہلاتی ہے۔

بسا اوقات کسی حدیث کی ایک سے زیادہ روایات ہوتی ہیں۔ کسی محدث کے پاس ایک روایت پہنچتی ہے تو کسی کے پاس دوسری، ایک کی سلسلہ رواۃ کی جرح و تعدیل یا چھان پھٹک کے بعد نتیجہ نکلتا ہے کہ ان میں کوئی ایک یا زیادہ راوی صحیح کی شرائط پر پورا نہیں اترتے تو جرح و تعدیل کرنے والا محدث اس حدیث کو ضعیف یا حسن قرار دیتا ہے۔ جب وہی حدیث کسی دوسری سند سے کسی محدث کے پاس پہنچتی ہے تو اس کی جرح و تعدیل کے بعد صحیح کے درجے پر پہنچ جاتی ہے۔ دونوں محدثین اپنی تحقیق کے مطابق پوری ایمانداری سے حدیث پر حکم لگاتے ہیں۔ محدیثن کے ہاں راویوں کے احوال کی چھان پھٹک کے کچھ متفقہ اصول ہیں جو امت مسلمہ میں ہمیشہ رائج رہے ہیں۔ اسی طرح تعدیل کرنے والوں کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

  1. معدل عادل ہو، فاسق کی تعدیل مقبول نہیں ہوگی۔
  2. معدل پرہیزگار ہو، اس کی پرہیزگاری اس کو تعصب اور خواہشات سے روکے۔ یعنی راویوں کے سلسلہ میں جان کار،نیز متقی وپرہیزگار، تعصب وتنگ نظری سے پاک، غیظ و غضب سے دور رہنا چاہیے تاکہ صحیح فیصلہ کر سکے، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس سے غلط فیصلہ ہو سکتا ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں:

اگر تم اپنے آپ کو سمجھدار، سچا، دیانت دار اور پرہیز گار سمجھتے ہو تو یہ کام کرنے کی جرأت کرو، اور اگر ایسا نہیں تو بلاوجہ پریشان مت ہو، اگر خواہش نفس، تعصب تنگ نظری اور مذہب پرستی غالب ہے تو براہ مہربانی اس کام کے لئے تکلیف نہ اٹھاؤ۔

  1. معدل متیقظ ہو، مغفل نہ ہو کہ راوی کے حالات ظاہری سے دھوکہ کھا جائے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ جرح وتعدیل اسی سے قبول کیا جانا چاہیے جو عادل ہو اور چاق وچوبند ہو۔
  2. معدل اسباب تعدیل کا عارف ہو، جو صفات قبول ورد کو نہ جانتا ہو اس کی تعدیل مقبول نہیں ہو گی۔

شرائط جرح

  1. جارـح فی نفسہ عادل ہو، فاسق کی جرح قابل قبول نہ ہو گی۔
  2. جارح متیقظ ہو، مغفل کی جرح مقبول نہیں ہو گی۔
  3. جارح اسباب جرح کا عارف ہو، غیر عارف کی جرح مقبول نہیں ہو گی۔
  4. جارح اسباب جرح کا بیان کرنے والا ہو، جرح مبہم مقبول نہیں ہو گی۔ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ اﷲ جرح مبہم کے قبول کے قائل ہیں۔ الا یہ کہ جن رواۃ کی عدالت معلوم ہے ان کے بارے میں جرح مبہم اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک کہ سبب جرح بیان نہ کر دیا جائے۔
  5. علامہ سبکی فرماتے ہیںکہ جارح کا جرح اگر مفسر بھی ہو تو بھی قابل قبول نہیں اگر یہ پتہ چل جائے کہ یہ عصبیت یا دنیاوی چپقلش کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
  6. جن کی امامت لوگوں کے درمیان مشہور ہو اور جن کی عدالت حد تواتر کو پہنچتی ہو ایسے اماموں پر واقع جرح غیر مقبول ہو گی جیسے نافع، شعبہ، مالک اور بخاری رحمہم اﷲ وغیرہ۔

مذکورہ بالا شروط جرح وتعدیل درج ذیل کتابوں سے نقل کی گئی ہیں:

  1. ذہبي، المُوْقِظَۃُ في علم مصطح الحدیث، مکتبۃ ابن تیمیۃ
  2. عسقلاني، نُزْہَۃُ النَّظَرِ فِيْ تَوضِیحِ نُخْبَۃِ الْفِکَرِ فَيْ مُصْطَلِحِ أَہْلِ الأَثَرِ، شرکۃ الشہاب الجزائر
  3. عبد العزیز بن محمد ابراہیم العبد اللطیف، ضوابط الجرح والتعدیل، مکتبۃ العبیکان
  4. أبو بکر بن أحمد، طبقات الشافعیۃ، بیروت: عالم الکتب
  5. ذہبی، تذکرۃ الحفاظ، بیروت: دار الکتب العلمیہ

لہٰذا مسلکی تعصب اور ضد بازی کی بناء پر کی گئی جرح و تعدیل قابلِ قبول نہیں ہوگی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 19 April, 2024 08:38:22 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/4173/