Fatwa Online

عالم کی کیا پہچان ہے؟

سوال نمبر:3992

السلام علیکم مفتی صاحب! قرآن و حدیث میں‌ عالم کی کیا تعریف بیان کی گئی ہے؟ دورِ‌ حاضر میں‌ جب ہر مسلک صرف اپنے مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کو ہی عالم مانتا ہے تو ایسے میں عالم کی پہچان کیا ہوگی؟

سوال پوچھنے والے کا نام: سید علی الحسن نقوی

  • مقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 17 اکتوبر 2016ء

موضوع:متفرق مسائل

جواب:

کسی شے کے بارے میں گہرائی سے جاننا، اُس شے کا علم کہلاتا ہے، اور جاننے والے کو عالم کہتے ہیں۔آئمہ لغت نے علم کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ:

العلمُ اِدراکُ الشئ بحقيقة.

کسی شے کو حقیقت کے ساتھ جان لینا علم کہلاتا ہے۔

  1. اصفهانی، المفردات فی غريب القرآن، 1: 343، لبنان، دارالمعرفه
  2. الزبيدی، تاج العروس، 33: 127، دارالهداية
  3. ابراهيم مصطفیٰ، المعجم الوسيط، 2: 624، دارالدعوة

علمائے کرام کے نزدیک علم کسی شے کی ماہیت کو جاننے کا نام ہے۔

المعرفة المعلوم علیٰ ما هو به.

کسی شے کو اس کی ماہیت (جس پر وہ قائم ہو) کے ساتھ جاننا علم کہلاتا ہے۔

  1. امام غزالی، المستصفی، 1:21، بيروت، لبنان، دارالکتب العلميه
  2. عبدالملک، البرھان فی اصول الفقه، 1: 99، الوفاء
  3. قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، 1: 206، القاهره، دارالشعب

آئمہ لغت، علمائے کرام، فقہاء اور محدثین نے کم و پیش علم کی یہی تعریف کی ہے جس میں گہرائی سے جاننے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس لیے ’عالمِ دین‘ وہی کہلائے گا جو دینی علوم کا فہم رکھتا ہو۔ قرآنِ مجید نے علماء کے طبقے کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ کردار کا بھی ایک معیار تجویز کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

 إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.

بس اﷲ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔

فَاطِر، 35: 28

لہٰذا عالم اس شخص کو کہا جائے گا جو قرآن وحدیث اور علومِ اسلامیہ کو گہرائی سے سمجھتا ہو، اس کا کردار اس کے علم کی گواہی دیتا ہو اور وہ احسن انداز میں ترویج و اشاعتِ دین کا کام کر رہا ہوں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 25 April, 2024 05:33:50 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3992/