Fatwa Online

اللہ تعالیٰ‌ کے فرمان ’مسلمانوں میں انہی میں سے رسول بھیجا‘ سے کیا مراد ہے؟

سوال نمبر:3692

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امید کرتاہوں کہ آپ اور آپ کا پورا اسٹاف اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے خیریت سے ہونگے۔

سر! الحمد للہ میں مسلمان ہوں اور قرآن پاک کے ہر لفظ، زیر، زبر، پیش، شد اور مد پہ میرا کامل ایمان ہے۔ عرض یہ ہے کہ ایک ملحد منکرِ اسلام نے مجھ سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا ہے۔ وہ پوچھتا ہے (نقل کفر کفر نہ باشد) کہ:

قرآنِ مجید میں موجودہ تکنیکی غلطیوں میں سے ایک غلطی سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 164 میں ہے۔

لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

درج بالا آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ پاک نے مسلمانوں میں رسول بھیجا انہیں میں سے۔ اس پر اس کا اعتراض یہ تھا کہ جب پیغمبرِ اسلام نے اعلانِ نبوت کیا اس وقت مکہ میں کوئی مسلمان موجود نہ تھا۔ یہ کہنا کہ مسلمانوں میں انہیں میں ایک رسول بھیجا تاریخی طور پر غلط اور زمینی حقائق کے منافی ہے۔ پھر آیت کے آخر پر بتایا جارہا ہے کہ بےشک اس سے پہلے مسلمان کھلی گمراہی میں تھے، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی شخص گمراہ ہوکر بھی مسلمان رہ سکتا ہے؟

بینوا و توجروا عنداللہ

سوال پوچھنے والے کا نام: ممتازعلی سمیجو

  • مقام: ٹھٹہ (سندھ)
  • تاریخ اشاعت: 21 ستمبر 2015ء

موضوع:عقائد

جواب:

دو نبیوں کی بعثت کے درمیانی عرصے کو دورِ فَتْرت کہتے ہیں۔ عام طور پر اس کا اطلاق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے دور پر ہوتا ہے۔ اس دور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات مٹ گئیں اور ان کی لائی ہوئی روشنی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور تک نہ پہنچ سکی، جس کے نتیجے میں لوگ جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں رہے۔ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی روشنی اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی روشنی میں اتصال نہ ہو سکا، جس کے نتیجے میں ایک تاریک خلا وجود میں آیا جسے دور فترت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اُس دور کے لوگوں کو اہل فترت کہاجاتا ہے۔

اہل فترت میں کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے شرک و بت پرستی کا ارتکاب کیا اور نہ ہی نیکی و بھلائی کے راستے کو چھوڑا۔ انہیں میں سے رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین ہیں۔ لہٰذا والدین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق پرست، توحید پرست اور اہل ایمان تھے۔ اسی لیے مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انہی نیک لوگوں کو مخاطب کیا ہے اور انہیں تسلیم کرنے والا کہا ہے۔

آیت کریمہ میں من انفسهم ’انہی میں سے‘ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف انسانوں میں سے ہی رسول مبعوث فرمایا، اور کسی دوسری مخلوق کو ان کے پاس رسول بنا کر نہیں بھیجا۔ اگر کسی جن یا فرشتے کو نبی بنا کر بھیجا جاتا تو وہ انسانوں سے مختلف ہوتا اور اس کی تعلیمات کو سمجھنا بھی آسان نہ ہوتا۔ نبوت کا ایک لازم جزو معجزہ ہے، اگر نبی بن کر آنے والا وہ جن یا فرشتہ معجزات دکھاتا تو لوگ اسی کو خدا مان کر اس کی عبادت شروع کر دیتے۔ اس لیے اللہ پاک نے مسلمانوں پر احسان یہ کیا کہ انہی کی مخلوق، قوم، قبیلے اور رنگ و نسل کا نبی بھیجا جس کی تعلیمات کو سمجھنا، اس سے مسائل پوچھنا اور اس کی دعوت توحید پر ایمان لانا آسان اور سہل ہے۔

آپ نے اپنے سوال کے آخری حصے میں پوچھا کہ کیا کوئی شخص مسلمان ہونے کے باوجود گمراہ ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخص ظاہراً لباسِ شریعت سے آراستہ، نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ پر فریفتہ ہو، قرآن و حدیث کا نام لے اور بہت سی باتوں میں دوسرے کلمہ گو لوگوں سے ممتاز نظر آئے، مگر اعتقادی طور پر گمراہی کا شکار ہو۔

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ ذَاتَ يَوْمٍ قِسْمًا فَقَالَ ذُوالْخُوَيْصَرَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اعْدِلْ، قَالَ : وَيْلَکَ مَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟ فَقَالَ عُمَرُ : اِئْذَنْ لِي فَلْأَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ : لَا، إِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمُرُوْقِ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ يَنْظُرُ إِلَي نَصْلِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَي رِصَافِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَي نَضِيِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَي قُذَذِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ يَخْرُجُوْنَ عَلَي حِيْنَ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ آيَتُهُمْ رَجُلٌ إِحْدَي يَدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ. قَالَ أَبُوْسَعِيْدٍ : أَشْهَدُ لَسَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، وَأَشْهَدُ أَنِّي کُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِيْنَ قَاتَلَهُمْ فَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَي فَأُتِيَ بِهِ عَلَي النَّعْتِ الَّذِي نَعْتَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث پاک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان (خارجی) لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔‘‘

  1. البخاري، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم : 5811، وفي کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : من ترک قتال الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 / 2540، الرقم : 6534،

  2. مسلم، الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064،

  3. النسائي، السنن الکبري، 5 / 159، الرقم : 8560 - 8561، 6 / 355، الرقم : 11220،

  4. أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 65، الرقم : 11639

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيَّ رضي الله عنه فَسَأَلَاهُ عَنِ الْحَرُوْرِيَةِ أَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : لَا أَدْرِي مَا الْحَرُوْرِيَةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ وَ لَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُوْنَ صَلَاتَکُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ أَوْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ.مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

  1. البخاري، الصحيح، کتاب: استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب: قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم : 6532، وفي کتاب: فضائل القرآن، باب: إثم من رائي بقرائة القرآن أو تاکل به أو فخر به، 4 / 1928، الرقم: 4771،

  2. مسلم، الصحيح، کتاب: الزکاة، باب: ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 743، الرقم: 1064،

  3. مالک في الموطأ، کتاب: القرآن، باب: ماجاء في القرآن، 1 / 204، الرقم : 478،

  4. النسائي في السنن الکبري، 3 / 31، الرقم : 8089،

  5. أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 60، الرقم: 11596

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 19 April, 2024 04:33:26 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3692/