Fatwa Online

کیا الفاظِ کنایہ سے دی جانے والی طلاق سے نکاح فوراً ختم ہوجائے گا؟

سوال نمبر:3641

میرا نکاح 07 ستمبر 2014 کو ہوا، اور اس کے کچھ عرصے بعد میری والدہ مجھ پر دباؤ ڈالنے لگی کہ تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو۔ پھر اسی عرصہ میں 29 مارچ 2015 کو گھریلو لڑائی کے دوران میں نے اپنی بیوی کو کہا ’میں تمہیں نہیں رکھ سکتا‘ اور اس کے فوراََ بعد میں نے دو (2) بار کہا میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ اس وقت میں شدید غصے کی حالت میں تھا اور میری کیفیت ایسی تھی کہ میں نے خودکشی کا بھی سوچا۔ میری بیوی حالتِ حیض میں تھی۔ میں ہائی بلڈ پریشر کا مریض بھی ہوں اور اینٹی ہائپر ٹینشن کی دوائی بھی لیتا ہوں۔اس واقعہ کے کچھ دن بعد میری بیوی میکے چلی گئی۔

پھر 14 مئی 2015 کو اپنی بیوی کو گھر واپس لانے کے سلسلے میں والدہ سے لڑائی ہوئی اور انہوں نے کہا وہ اس گھر پر نہیں آئیگی تم اسے چھوڑ دو یا پھر الگ گھر لیکر رہو اور ہمارا تمہارا تعلق ختم۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے کہا کہ تمہں ہر صورت اُسے چھوڑنا ہی ہوگا ۔ پھر لڑائی بھڑ گئی اور میں نے طلاق اسٹمپ پیپر پر سائن کر دئے۔ اس وقت میرا غصہ شدید تھا لیکن اس نوعیت کا نہیں جو پہلے تھا اور جان بوجھ کر وہ سائن نہیں کیے جو نکاح نامہ پر کئے تھے، یعنی اصلی کی بجائے جعلی دستخط کیے۔ ساتھ ہی والدہ نے میری بیوی کو فون پر اطلاع دی کہ عمیر تمہیں چھوڑ رہا ہے تم اپنے گھر والوں کے ساتھ یہاں آؤ۔ میں نے طلاق کے پیپرز والدہ کے حوالے کیے اور کہا جو کرنا ہے کرلیں۔

15 مئی کو بیوی کے گھر والے آئے اور اس وقت میری بیوی بھی موجود تھی، دونوں خاندانوں کے درمیان لڑائی ہو رہی تھی میں دوسرے کمرے میں تھا۔ جب لڑئی بہت بڑھ گئی تو میں کمرے میں‌گیا اور کچھ کہا لیکن مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا کہا تھا۔ کچھ دیر بعد لڑائی ختم ہوگئی اور یہ فیصلہ ہوا کہ ایک ہفتے بعد دوبارہ بیٹھ کر اس مسئلہ کو حل کریں گے۔

17مئی کو لڑکی کے گھر والے آئے اور کہا لڑکے نے کہا تھا ’میں‌نے چھوڑ دیا‘ جس سے تین طلاق ہوگئی۔ لیکن مجھے یاد نہیں میں نے ایسا کچھ کہا تھا۔ غالب گمان یہ ہے کہ میں نے کہا تھا ’لڑائی ختم کریں چھوڑنا ہے چھوڑدوں گا‘ اس بات کے چار گواہ موجود ہیں۔ پھر دو دن بعد میرے گھر والوں نے زبردستی زہر کھانے کی دھمکی دے کرحق مہر کے چیک پر سائن کروا لیے۔

کیا اس صورت حال میں‌تجدید نکاح ہوسکتا ہے؟ کیونکہ جب میں نے کہا ’میں تمھیں نہیں رکھ سکتا‘ اور پھر طلاق صریح دی جس سے نیت ظاہر ہورہی ہے اور طلاق بائن قائم ہوگئ اور بعد کی ساری طلاقیں غیرموثر ہوگئیں۔ بحوالہ سوال نمبر 3328، 3290، 3310 آپ کی ویب سائٹ سے۔

برائے مہربانی میری راہنمائی کریں میرے اور میری بیوی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ میرے غصے کی حالت اور بیماری کو بھی مد نظر رکھیں۔

شکریہ

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد عمیر

  • مقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 01 جون 2015ء

موضوع:طلاق  |  طلاق بائن

جواب:

آپ کے بیان کردہ حالات و واقعات میں اگر آپ کے غصے کی کیفیت ایسی تھی کہ ان میں انسان درست فیصلہ نہیں کر پاتا تو پھر آپ کی طرف سے دی گئی کوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔ اس کی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: غصے کی طلاق کا کیا حکم ہے؟

اگر مذکورہ حالات کے علاوہ آپ نے کسی وقت عام حالت میں طلاق کی نیت سے الفاظِ کنایات بولے ہیں تو ان سے آپ کا نکاح ختم ہوگیا، اس کے بعد دی جانے والی طلاقیں، غصے میں دی ہیں یا نارمل حالت میں، غیر مؤثر ہوں گی کیونکہ نکاح پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔

تجدید نکاح اس صورت میں ہوگا اگر آپ نے الفاظِ کنایہ پہلے بولے ہیں اور صریح الفاظ سے طلاق بعد میں دی ہے۔ اگر طلاق صریح پہلے دی ہے تو جتنی بار آپ نے طلاق کا لفظ بولا اتنی بار طلاق واقع ہوگئی۔

اگر آپ نے صاف لفظوں میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ  طلاق دی ہے تو ’طلاقِ رجعی‘ واقع ہوئی ہے، جس سے نکاح فوری طور پر ختم نہیں ہوا اور عدّت کے پورا ہونے تک آپ کی بیوی بدستور آپ کے نکاح میں ہے۔ آپ کو یہ حق ہے کہ آپ دورانِ عدّت جب چاہیں رُجوع کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر عدّت گزرگئی اور آپ نے اپنے قول یا فعل سے رُجوع نہیں کیا تو نکاح ختم ہوگیا۔ عدت کے بعد اگر آپ دونوں میں مصالحت ہوجائے تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ اگر آپ نے ایک ’رجعی طلاق‘ دی تو آپ کے پاس باقی دو طلاقوں کا اختیار رہ گیا، اور اگر دو ’رجعی طلاقیں‘ دیں تو آپ کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔ اس صورت میں اگر آپ بیوی کو کسی بھی وقت ایک طلاق دیں گے تو بیوی حرام ہوجائے گی اور کسی دوسرے شخص سے نکاح کیے بغیر آپ دونوں کا دوبارہ نکاح نہیں ہوسکے گا۔

اگر آپ نے صاف لفظوں میں تین مرتبہ طلاق دی ہے تو ’طلاقِ مغلظہ‘ واقع ہوئی ہے، اس صورت میں آپ کی بیوی آپ پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی ہے، اور اس وقت حلال نہيں ہوگى جب تك وہ كسى اور شخص سے نكاح نہ كر لے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:محمد شبیر قادری

Print Date : 20 April, 2024 04:52:09 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3641/