Fatwa Online

اشیاء خرید وفروخت پر کمیشن لینے کے کونسے جائز طریقے ہیں؟

سوال نمبر:2396

قابل صد احترام مفتی صاحب السلام و علیکم مجھے ایک کاروبار کے بارے میں رہنمائی چاہیئے، یہ عام کاروبار سے ہٹ کر ہے، اس میں خریدار چیز خریدنے کے بعد اسی چیز کو آگے بیچنے کا بھی حقدار ہے، یعنی کسی خریدار نے ایک چیز خریدی، اسے استعمال کیا اور اس کی خوبیاں یا خامیاں جاننے کے بعد اس کو مزید لوگوں کو دکھایا اور کمپنی کی مزید اشیا بکوا دیں اس پر اس کو کمیشن حاصل ہوا۔ اس کاروبار میں مندرجہ ذیل اصولوں کو مد نظر رکھا گیا ہے 1. برائے فروخت پیش کی جانے والی اشیا کی قیمت بازار کی قیمت کے قریب مساوی ہے انتہائی قلیل مقدار میں کہیں فرق ہو سکتا ہے، مثال کے طور پر کراچی میں خوشبو کی ایک شیشی اگر 50 روپے کی ہے تو پشاور میں وہی 70 روپے کی بک رہی ہو گی کیوں کہ وہ بنی کراچی میں ہے اور پشاور تک پہنچتے پہنچتے اس کی قیمت خرید میں راستے کے خرچ اور ٹیکسز وغیرہ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ تو ہمارے پیش نظر کمپنی میں اس چیز کی قیمت 50 روپے سے 70 روپے کے درمیان ہو گی ۔ 2. خریدار کی رضا ہے کہ وہ آگے کاروبار کرنا چاہتا ہے یا نہیں ، یعنی اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ 3. خریدار اپنے کاروبار کو دو طریقوں سے آگے بڑھا سکتا ہے ، ایک یہ کہ وہ اپنے توسط سے مزید ایسے خریدار بنائے جو کہ آگے کاروبار بھی کرنا چاہیں ، دو یہ کہ وہ صرف اشیا کو بیچنے پر توجہ دینا چاہتا ہے تو ایسے لوگوں کو چیزیں بیچے جو صرف اور صرف خریدار ہوں اور آگے اشیا بیچنا نہ چاہتے ہوں۔ 4. دونوں طریقوں سے اشیا بیچنے والے کو ہر چیز کی فروخت پر اسی وقت کمیشن دیا جائے گا، اس میں کسی قسم کی پبندی نہیں کہ اتنی مقدار میں اشیا بیچو گے تو ہی کمیشن ملے گا۔ 5۔ جن لوگوں کو اس نے کاروبار شروع کروایا ، ان کے کاروبار کی مکمل دیکھ بھال اس کے ذمہ ہو گی ، ان کو چیز بیچنے کے طریقہ کا سکھانا، اپنے کاروبار کے حساب کی دیکھ بھال، اپنے حقوق کا تحفظ وغیرہ ایسی باتیں ہیں جو وہ اپنی ٹیم کو خود سکھائے گا ۔ اس کے بدلے میں اس کو ان اشیا میں سے بھی کمیشن دیا جائے گا جو اس کی ٹیم کے افراد بیچ رہے ہیں۔ لیکن ذمہ داریاں کم ہونے کے ساتھ ہی کمیشن بھی کم ہوتا جائے گا ۔ یعنی 10 یا 20 افراد کی ٹیم کے ذمہ دار کی مصروفیت زیادہ ہے لیکن جیسے ہی اس کی ٹیم بڑی ہو گی اس کے مدد گار افراد (انتظام و انصرام میں ) اسے دستیاب ہوتے جائیں گے، تو اس کا کام آسان ہوتا جائے گا اسی طرح اس کا نفع بھی کم سے کم ہوتا جائے گا۔ لیکن چوں کہ زیادہ اشیا بک رہی ہوں گی تو اس کو کمی سے نقصان نہیں ہو گا ۔ جیسے کہ ہول سیل ڈیلر جن کا منافع ایک فی صد ہوتا ہے لیکن وہ اس پر بھی کامیابی سے کاروبار کر ہے ہوتے ہیں۔ 6. کوئی بھی چیز خریدنے والا اگر بغیر استعمال کیئے اس کو کسی کو بیچنا چاہے تو آسانی سے بیچ سکتا ہے ، یعنی کسی چیز کی قیمت ایسی نہیں جو کہ بازار سے زیادہ ہو۔ 7۔ تمام قابل فروخت اشیا بغیر کسی شرط کے عام دستیاب ہیں اور کوئی بھی شخص عام دکانداری انداز میں بھی آن لائن ان کو خرید سکتا ہے۔ یعنی یہ ہر گز ضروری نہیں کہ وہ ہمارے پاس اپنا اندراج بطور دکاندار کروائے گا تبھی اشیا خرید پائے گا۔ 8۔ کاروبار اشیا کی صفات اور ان کی ضرورت کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے ، یعنی گاہک کو چیز بیچی جاتی ہے اور اس کے بعد ہی اگر وہ چاہے تو اس کو کاروبار شروع کرنے کے لیئے طریقہ کار سکھایا جائے گا ورنہ وہ عام دکان کی طرح اپنی مطلوبہ چیز خرید کر جا سکتا ہے۔ 9۔ صرف سونے سے بنی بار ایسی فروخت ہے جس کے لیئے خریدار کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو بیعانہ دے دے اور ساتھ ہی اشیا بیچ کر اس کے کمیشن سے سونے کے مساوی رقم جمع کر کے اس کو خرید لے، اس صورتحال میں اس کے روزانہ کے کمیشن میں سے 75 فی صد اس کو مل جائے گا اور 25 فی صد اس کے سونے کی خرید کے کھاتے میں جمع ہو جائے گا۔ 10۔ کاروبار کے مالک کا کمیشن قریب 12 سے 20 فی صد کے درمیان بنتا ہے (جو مختلف اشیا پر مختلف ہے ، لیکن کسی بھی چیز پر 20 فی صد سے زیادہ نہیں ہے ) 11۔ فروخت کے لیئے دستیاب اشیا میں بلوچی کڑھائی والے گلے ، جو خواتین کپڑوں پر لگاتی ہیں ۔ ہاتھ سے بنے ہوے زیورات جو کہ عام لیس موتی وغیرہ سے بنے ہوتے ہیں، شامل ہیں ۔ اسی کمپنی کی ایک اور ویب سائیٹ جس پر آن لائن ماہر نفسیات کی جانب سے علاج کی سہولت دستیاب ہے، اس پر علاج کے مختلف دورانیئے بھی اس کی ایک پروڈکٹ کے طور پر شامل ہیں ، یعنی کہ کسی کا بچہ پڑھنے میں دشواری محسوس کرتا ہے یا بہت زیادہ ضدی ہے تو اس کا کونسلنگ کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے، ماہر نفسیات کو 30 میں سے 25 ڈالر ملیں گے اور 5 ڈالر ویب سائیٹ کا کمیشن ہے ۔ لیکن کمپنی اپنے ماہرین نفسیات سے یہ معاہدہ کرتی ہے کہ دوسری کاروباری کمپنی کی جانب سے آنے والے مریضوں کے علاج سے انہیں 25 کی بجائے 15 ڈالر فی مریض کمیشن دیا جائے گا۔ وہ اس پر خوشی سے تیار ہو جاتےہیں کیوں کہ انہیں اس طریقے سے زیادہ مریض ملتے ہیں ۔ اور بچ جانے والی رقم کاروباری کمپنی کے بھیجنے والے افراد میں بطور کمیشن تقسیم کر دی جاتی ہے ۔ تیسری قسم سونے کی بار ہیں جو کہ بازار میں روزانہ کی سونے کی قیمت کے مطابق ہوتی ہیں ۔ ان میں بھی مارکیٹ کے حساب سے معمولی فرق ہو سکتا ہے جیسے کہ ایک ہی دن میں کراچی میں سونا 65100 روپے تولہ اور راولپنڈی میں 65400 روپے تولہ ہو سکتا ہے۔ جناب مفتی صاحب ۔ انتہائی نیک نیتی سے بغیر کوئی امر مخفی رکھے تمام صورت حال آپ کے سامنے پیش کر دی ہے، یہ کاروبار ہم قرآن و سنت کے مطابق کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر دین کے مطابق اس میں کوئی قباحت ہے تو رہنمائی فرما دیں ۔ انشااللہ اس سقم کو جلد از جلد دور کر کے دوبارہ برائے رہنمائی حاضر ہوں گے ۔ اور جب تک کامل یقین نہ ہو جائے اس کو شروع نہیں کریں گے ۔ جواب کا شدت سے منتظر رہوں گا۔

سوال پوچھنے والے کا نام: سید معظم علی

  • مقام: اٹک سٹی، پنجاب، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 13 مارچ 2013ء

موضوع:خرید و فروخت (بیع و شراء، تجارت)

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں۔

1۔ اشیاء کی کوالٹی کے مطابق ان کی قیمتیں ہونی چاہیں اور مناسب منافع لیا جائے۔ باقی رہا خرچ اور ٹیکسز وہ اصول تجارت کے مطابق جس کے حصے میں آتے ہیں وہی ادا کرے گا۔ یہ تو واضح ہے کہ کراچی میں بننے والی اشیاء کی قیمتیں کراچی کی نسبت زیادہ ہوں گی۔ لیکن قواعد وضوابط کے مطابق مناسب اضافہ ہونا چاہیے اندھا دھند لوٹ مار کا بازار گرم نہیں کرنا چاہیے۔ جیسے آج کل اکثر ہو رہا ہے۔

2۔ درست ہے۔ اس طرح غیر ضروری پابندیاں نہیں ہونی چاہیں۔

3۔ طریقہ جو بھی اپنائے اس میں دھوکہ فراڈ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اشیاء کی خوبیوں اور خامیوں کو مخفی رکھا جائے ہر چیز دو جمع دو چار کی طرح واضح ہونی چاہیے۔

4۔ بہت اچھی بات ہے اگر ایسا ہی ہے تو ہونا چاہیے تاکہ محنت کا بدلہ جلد ہی مل جائے اور جتنا کوئی کر سکے کرتا رہے۔

5۔ اصل مقصد ہے محنت کے مطابق معاوضہ ملنا چاہیے۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ کہ ایک بندہ جتنی زیادہ محنت کرے اس کا اتنا ہی زیادہ معاوضہ ہونا چاہیے، یہ محنت کرنے والے کا حق اور آپ کا فرض ہے۔

6۔ بالکل ضروری ہے کہ اشیاء کی قیمتیں مناسب ہوں۔

7۔ یہ بھی اچھی روایت ہے۔

8۔ ٹھیک ہے زبردستی تو کسی سے کاروبار کروایا بھی نہیں جا سکتا ہے۔

9۔ اس پوائنٹ کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سونے سے بنی ہوئی اشیاء کے لیے بیعانہ دے کر دوسری اشیاء بیچ بیچ کر 25 فیصد کٹوتی کرواتا رہے اور جب قیمت پوری ہو جائے سونے کی بنی ہوئی شے حاصل کر لے۔ اگر ایسا ہی ہے پھر تو درست ہے لیکن اس میں یہ بھی ہونا چاہیے جب سے خریدار پیسے

جمع کروانا شروع کر دے اس وقت سے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آپ ان پیسوں کو استعمال کر رہے ہیں ان سے نفع ہو گا وہ بھی ان میں شامل کیا جائے کل قیمت سے وہ منافع نکال دیا جائے تاکہ خریدار کو فائدہ ہو۔

10۔ کمیشن کے معاملے میں تمام افراد کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون کتنا کمیشن لے رہا ہے۔ طے ہونا ضروری ہے۔

11۔ یہ تو درست ہے اشیاء وہی ہونی چاہیں جو قانونی اور شرعی طور پر قابل فروخت ہوں۔

جس کو علاج معالجے کی ضرورت ہو اسی کا ہونا چاہیے یہ نہیں کہ کٹوتی کرنے کی خاطر ہر ایک کو ہی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا کر دیا جائے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ یہ تو ہر ادارے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ورکروں کو زیادہ سے زیادہ ہر طرح کی سہولتیں مہیا کریں۔

باقی باہر سے آنے والے مریضوں کے لیے بھی مناسب فیس ہونی چاہیے بہت زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہ ماہرین نفسیات اندھیرے میں تیر نہ پھینکیں آج کل مختلف ٹی وی چینلز اور ویب سائیٹس پر ماہرین نفسیات، عامل، جن بابے اور اپنے آپ کو پیر کہلوانے والے حالانکہ وہ پیر نہیں ہیں اکثر نظر آتے ہیں وہ لوگوں سر عام لوٹ رہے ہیں اگر یہاں بھی کوئی ایسی بات ہے تو شرعا جائز نہیں ہے۔ ان لوگوں نے معاشرے کو تباہ کرنے میں بہت زیادہ مدد دی ہے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ لوگ ان کی زندگیوں سے کس برے طریقے سے کھیل رہے ہیں۔

یہ تو پہلے بھی بیان کر دیا گیا ہے اخراجات میں اضافے کی صورت میں اضافہ مناسب ہونا چاہیے جو قانونی بنتا ہے۔ اب آخر پر ایک بار پھر کچھ باتیں سمجھ لیں تاکہ کوئی تشنگی نہ رہے۔

1۔ جو جو پراڈکٹ مارکیٹ میں دے رہے ہیں وہ قانونا اور شرعا قابل فروخت ہو ممنوعہ اشیاء نہ ہوں۔

2۔ اشیاء کی قیمتیں اور ورکروں کو دی جانے والی کمیشن باقی تمام امور طے شدہ ہوں اور سب کے لیے واضح ہوں کہیں بھی کوئی امر مخفی نہ رکھا جائے۔

3۔ جو شے دیکھائی جائے یعنی نمونہ کے طور پر دی جائے باقی بھی طے شدہ قیمت کے مطابق اسی کوالٹی کی ہونی چاہیں۔

4۔ اشیاء کی قیمتیں مناسب ہونی چاہیں حد سے بڑھ کر بے جا منافع لے کر ظلم کا بازار گرم نہ کیا جائے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 19 April, 2024 09:02:42 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/2396/