Fatwa Online

کیا گم شدہ چیز کو صدقہ کیا جا سکتا ہے؟

سوال نمبر:1592

ایک شخص کی کوئی چیز گُم ہو گئی ہے اور اب وہ کہتا ہے کہ چلو میں نے اسے راہ خدا میں دیا یا میں نے اس کو صدقہ کر دیا تو کیا اس طرح کہنے سے اس چیز کا صدقہ کرنا کیسا اور کیا اس طرح کہنے سے وہ چیز صدقہ ہو جائے گی یا نہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام: تیمور

  • مقام: خان پور ہزارہ
  • تاریخ اشاعت: 02 اپریل 2012ء

موضوع:صدقات

جواب:

بزار و دار قطنی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گمشدہ چیز کے متعلق سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لقطہ (گمشدہ چیز) حلال نہیں ہے اور جو شخص پڑا ہوا مال اٹھائے تو اس کی ایک سال تک تشہیر کرے، اس کا ایک سال تک اعلان کرے اگر مالک آ جائے تو اسے دے دے اور نہ آئے تو صدقہ کر دے۔

امام احمد ابو داود دارمی عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص پڑی ہوئی چیز پائے ایک یا دو عادل لوگوں کو اٹھاتے وقت گواہ بنا لے اور اسے نہ چھپائے اور نہ غائب کرے، پھر اگر مالک مل جائے تو اسے دے دے ورنہ اللہ تعالی کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔

راستے میں گری ہوئی چیزوں کو اٹھا لینے کا حکم یہ ہے کہ  اگر کوئی چیز پڑی ہوئی مل جائے اور یہ خیال ہو کہ میں اس کے مالک کو تلاش کر کے دے دوں گا تو اٹھا لینا مستحب ہے اور اگر اندیشہ ہو کہ شاید میں اس کو خود ہی رکھ لوں اور مالک کو نہ تلاش کروں تو چھوڑ دینا بہتر ہے اور اگر غالب گمان ہو کہ مالک کو نہ دوں گا تو اٹھانا ناجائز ہے اور اپنے لئے اٹھانا حرام ہے اور اس صورت میں بمنزلہ غصب کے ہے اور یہ گمان ہو کہ میں نہ اٹھاؤں گا تو یہ چیز ضائع و ہلاک ہو جائے گی تو ضرور اٹھا لے اور اگر نہ اٹھائے اور وہ ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔

درج بالا حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کوئی چیز راستے میں یا کسی بھی جگہ سے گری ہوئی ملے تو اس نیت کے ساتھ اٹھا لینی چاہیے کہ اس کے مالک کو تلاش کر کے پہنچا دوں گا اور ممکن  حد تک اس کا اعلان بھی مختلف ذرائع سے کروا دوں گا۔ اگر مالک مل جائے تو اسے دے دینی چاہیے ورنہ اس کا اختیار ہے چاہے تو خود اپنے استعمال میں لائے یا اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کر دے، اس کا صدقہ کرنا بھی جائز ہے۔ اور اس کا اسے ثواب بھی ملے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:حافظ محمد اشتیاق الازہری

Print Date : 25 April, 2024 03:25:38 AM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1592/