Fatwa Online

مضاربہ کیا ہے؟

سوال نمبر:1347

بیع مضاربہ کیا ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد فیصل بیگ

  • مقام: پشاور
  • تاریخ اشاعت: 31 دسمبر 2011ء

موضوع:مضاربت

جواب:

لغت کی رو سے مضاربت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنا مال کسی کو اس شرط پر تجارت کی غرض سے دے کہ نفع میں باہمی قراردداد کے مطابق دونوں شریک ہوں گے اور نقصان مال والا (صاحب مال) برداشت کرے گا۔

لفظ ’’مضاربت‘‘ مادہ ضرب سے نکلا ہے جس کے معنی’’ سفر‘‘ کے ہیں کیونکہ کاروبار تجارت میں بالعموم سفر کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ

اور جب تم زمین پر سفر کرو۔

اس کو قراض اور مقارضہ بھی کہتے ہیں۔ یہ لفظ قرض سے مشتق ہے جس کے معنی جدا کرنے کے ہیں۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مالک اپنے مال کا ایک حصہ الگ کر دیتا ہے تاکہ نفع کے ایک حصہ کے عوض اس سے کاروبار کیا جائے۔

اصطلاحی معنیٰ

فقہاء کے نزدیک مضاربت دو فریق کے درمیان اس امر پر مشتمل ایک معاہدہ ہے کہ ایک فریق دوسرے کو اپنے مال پر اختیار دے دے گا کہ وہ نفع میں سے ایک مقررہ حصہ مثلاً نصف یا تہائی وغیرہ کے عوض مخصوص شرائط کے ساتھ اس مال کو تجارت (یا کاروبار) میں لگائے۔

تعریف

دو یا زائد افراد کے درمیان ایسا معاملہ جس میں ایک فریق سرمایہ فراہم کرتا ہے اور فریق ثانی اس سرمائے سے اس معاہدے کے تحت کاروبار کرتا ہے کہ اسے کاروبار کے منافع میں سے ایک متعین نسبت سے حصہ ملے گا۔

مضاربت کی مختلف صورتیں

پہلی صورت

دو افراد معاہدہ مضاربت کریں۔ ایک رب المال اور دوسرا مضارب۔

دوسری صورت

دوسے زیادہ افراد مضاربت کریں اس کی درج ذیل صورتیں ہیں۔

(الف) پہلی صورت

ایک سے زائد افراد (رب المال) سرمایہ فراہم کریں اور ایک سے زائد افراد (مضارب) اس سرمایہ پر محنت کریں۔

(ب) دوسری صورت

سرمایہ ایک فرد (رب المال) فراہم کرے اور ایک سے زائد افراد (مضارب) اس سے کاروبار کریں۔

(ج) تیسری صورت

سرمایہ چند افراد مل کر فراہم کریں اور محنت ایک فرد کرے۔

مضاربت کی مندرجہ بالا تمام صورتیں جائز ہیں۔

مضاربت کے بارے میں احادیث

  1. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی وہ مثل قیدی کے ہے لہٰذا اے اللہ کے بندو! اسکے ساتھ مضاربت کرو اسے قرض دو۔ (المبسوط)
  2. حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ مخصوص شرائط کے ساتھ مضاربت کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اظہار پسندیدگی فرمایا۔ (المبسوط)
  3. کلیم بن خرام رضی اللہ عنہ اپنی شرائط کیساتھ مضاربت کرتے تھے۔ (المبسوط)
  4. ابونعیم راوی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کو مضاربت کے طور پر حاصل کر کے شام میں تجارت کی۔ (المبسوط)
  5. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ مضاربت میں برکت ہے۔ (ابودائود)
  6. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مضاربت کیا کرتے تھے۔ (التبرکات فی الفقہ الاسلامی)
  7. ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے پاس لوگوں کو جمع شدہ سرمایہ مضاربت کے طور پر کاروبار کیلئے دیا کرتی تھیں۔ (التبرکات فی الفقہ الاسلامی)
  8. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی زید بن خلیدہ کے ساتھ مضاربت کی۔ (المبسوط)
  9. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے بھی مضاربت کے اصول پر کاروبار کے لئے رقم دی۔ (المبسوط)
  10. آپ یتیموں کا مال مضاربت کے اصول پر کاروبار کے لئے دیتے تھے تاکہ اس میں اضافہ ہو۔ (المبسوط)

مضاربت کے احکام

  1. مضارب کو مال حوالہ کرنے کے بعد اور کاروبار شروع کرنے سے پہلے تک اس مال کی حیثیت امانت کی ہے اور امانت کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور جب رب المال اس رقم کو واپس مانگے تو اس کی واپسی بھی مضارب کی ذمہ داری ہے۔ مال ضائع ہو جانے کی صورت میں مضارب پر جرمانہ نہیں ہوگا۔
  2. کاروبار شروع ہوجانے کے بعد مضارب کی حیثیت رب المال کے وکیل (نمائندہ) کی ہو جاتی ہے۔
  3. کاروبار میں منافع ہونے کی صورت میں مضارب کی حیثیت مالیاتی معاہدہ کے شریک کی ہو جاتی ہے اور ہر شریک کاروبار کو معینہ اور طے شدہ نسبت سے منافع کی تقسیم کی جائے گی۔
  4. اگر کسی وجہ سے معاہدہ مضاربت منسوخ ہو جائے تو اس صورت میں یہ معاہدہ مضاربت نہیں بلکہ معاہدہ روزگار کی شکل اختیار کرے گا اور مضارب کی حیثیت ملازم کی ہو جائے گی۔ نفع یانقصان رب المال کا ہوگا جبکہ مضارب کو اسکی اجرت ملے گی۔
  5. اگر مضارب‘ معاہدہ مضاربت کی شرائط میں سے کسی شرط کو تسلم نہ کرے تو اس کی حیثیت غاصب کی ہوگی اور اس پر اصل سرمایہ کی واپسی کی ذمہ داری ہوگی۔
  6. اگر معاہدہ مضاربت کی ایک شرط یہ ہو کر سارا کا سارا منافع مضاربت کو ملے گا تو یہ معاہدہ مضاربت نہیں بلکہ مضارب کی حیثیت مقروض کی ہوگی اور یہ معاملہ قرض کا معاملہ ہوگا۔ نفع و نقصان کی ذمہ داری اس کی اپنی ہوگی اور سرمایہ کے ضیاع کی صورت میں سرمایہ کی رب المال کو واپسی اس کی ذمہ داری ہوگی۔
  7. اگر شرط یہ ہو کہ سارا کا سارا منافع مالک کا ہوگا تو یہ معاملہ عقدالبضاعۃ کا ہوگا۔ مصاربہ نہ ہوگا، مضارب ملازم ہو جائے گا۔

مضاربت کے ارکان

مضاربت کے دو ارکان ہیں۔

  1. ایجاب
  2. قبول

ارکان کے لئے الفاظ کی ضرورت ہے جو جانبین کے معاہدہ مضاربت پر رضامندی کو ظاہرکریں۔ مثلاً ایک فریق کہتا ہے یہ مال (سرمایہ) لو اور اس سے ’’مضاربت‘‘ یا ’’مقارضہ‘‘ یا ’’معاملہ‘‘ کرو۔ یا یہ مال مضاربت کے لئے لو۔ اس پر جو منافع ہوگا‘ وہ ہم نصف نصف یا دوتہائی اور ایک تہائی کے حساب سے تقسیم کر لیں گے اور جواب میں مضارب کہے کہ میں نے یہ سرمایہ حاصل کیا یا ’’میں اس معاہدہ پر راضی ہوں‘‘ یا ’’میں نے قبول کیا‘‘۔

مضاربت کی شرائط

معاہدہ مضاربت کی درج ذیل شرائط ہیں۔

  1. راس المال (یعنی سرمایہ) نقدی یا زریا سونے چاندی کی صورت میں ہونا چاہئے۔ باقی مال تجارت (عروض التجارۃ) کے ساتھ مضاربت جائز نہیں ہے۔ نقدی ہونا ضروری ہے کیونکہ مال تجارت کی قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے قدرسرمایہ اورمنافع کی مقداربھی تبدیل ہوجاتی ہے مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ یہ کپاس یا کپڑا ایک ہزار روپے کا ہے۔ یہ لو اور مضاربت کی بنا پر اس کو بیچو تو معاملہ درست نہیں ہے۔ البتہ اگر مضارب سے کہا جائے کہ یہ مال تجارت لو اور اس سے جو سرمایہ حاصل ہو۔ اسکے ساتھ مضاربت کرو تو حنفی اور حنبلی فقہ کے مطابق جائز ہے جبکہ حنبلی مکتبہ فکر کے مطابق مشینری اور اوزاروں کی صورت میں سرمایہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ شکست وریخت کے اخراجات رب المال کے ذمہ ہوں۔
  2. معاہدہ مضاربت کے وقت راس المال (سرمایہ) معلوم ہونا ضروری ہے تاکہ کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہ ہو سکے۔
  3. معاہدہ مضاربت کے موقع پر رب المال کے پاس سرمایہ کی موجودگی ضروری ہے۔ مضارب پر اگر قرض ہو تو اس کی بنیاد پر معاہدہ مضاربت نہیں ہو سکتاہے۔ البتہ اگر مضارب کو کسی اور شخص سے قرض وصول کرنے اور اس کے بعد کاروبار شروع کرنے کے لئے کہا جائے۔ اس صورت میں مضارب رب المال کا نمائندہ ہوگا۔
  4. معاہدہ کے وقت سرمایہ مضارب کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اسی پر تصرف کر سکے۔ اگر یہ کہا جائے کہ رب المال مضارب کے ساتھ کاروبار میں حصہ لے گا تو معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔
  5. متوقع منافع میں سے مضارب کا حصہ (شرح یا فیصد) معلوم ہونا چاہئے۔ مثلاً نصف یا تیسرا حصہ وغیرہ۔ اگرہ یہ کہا جائے کہ اس سرمایہ سے کاروبار کرو‘ منافع میں سے تمہیں دو ہزار یا (کم وبیش) رقم ملے گی تو مضاربت کا معاملہ منسوخ ہو جائے گا۔ اسی طرح یہ کہنا کہ نصف اور اسکے علاوہ ایک ہزار روپے تو یہ صورت بھی درست نہیں۔
  6. مضارب کا حصہ منافع میں سے طے کیا جائے گا۔ راس المال (سرمایہ) میں سے نہیں۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ نصف مال تمہارا اور منافع میں سے بھی اتنا اور اتنا حصہ یہ درست نہیں۔ اسی طرح یہ شرط بھی درست نہیں کہ مضارب کو نصف یا تیسرا حصہ منافع کے علاوہ ماہانہ تنخواہ بھی ملے گی۔ یہ شرط باطل ہے جبکہ معاہدہ درست ہے۔ مضارب صرف منافع میں سے حصہ کا مالک ہے لیکن اگر شرط یہ ہو کہ مضارب کو رہنے کو مکان یا زراعت کے لئے زمین بھی دی جائے گی تو معاہدہ فاسدہوگا۔
  7. اگر مضارب کے پاس رب المال کا مال یا مالی ذرائع بطور رہن موجود ہوں اور رب المال نے مضارب سے قرض لے رکھا ہوتو ایسے سرمایہ پر مضارب درست نہیں ہے۔

مضارب کے حقوق وفرائض

  1. مضارب کے لئے ضروری ہے کہ وہ معاہدہ کی تمام شقوں اور شرائط کی پابندی کرے۔
  2. مضارب کی دوسرے شخص کے ساتھ بھی مضاربت کا معاملہ کر سکتا ہے اور یہ کہ اس کو ایسا کرنے سے روک دیا جائے۔
  3. کوئی تیسرا شخص مضارب کی بلامعاوضہ مدد کر سکتا ہے تاکہ وہ کاروبار کو بہتر طورپر چلا سکے۔
  4. اکثر فقہاء کا کہنا ہے کہ رب المال‘ مضارب کے ساتھ کاروبار میں عملی حصہ نہیں لے سکتا کیونکہ اس سے مضارب کے اختیارات محدود ہو جاتے ہیں جبکہ شافعی مکتبہ فکر کے کچھ علماء اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ رب المال‘ مضاربت میں عملی حصہ بھی لے سکتا ہے۔ دور جدید کے بڑے پیمانے کے کاروبار جن میں فیصلوں کا اختیار فرد واحد کی بجائے بالعموم ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پاس ہوتا ہے۔ رب المال کا مضاربت کے کاروبار میں عملی شرکت کرناجائز ہے۔
  5. معاہدہ مضاربت میں ضارب کی طرف سے راس المال (سرمایہ) کی بحفاظت واپسی کی ضمانت دینے سے مضاربت کا معاہدہ منسوخ ہو جاتا ہے۔ البتہ مضارب کی طرف سے پوری ذمہ داری سے کام کرنے کی ضمانت لی جا سکتی ہے۔
  6. مضارب کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کاروباری خرید وفروخت کر سکتا ہے۔ اشیاء وغیرہ کو اپنے قبضے میں رکھ سکتا ہے۔ کسی فرد کے ساتھ رہن (قرض یا ادھار دیتے ہوئے ضمانت کے طور پر کوئی چیز رکھنا ) کا معاملہ کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے فرد کے ساتھ مضاربت کا معاملہ کرسکتا ہے۔ الایہ کہ اس کو ایسا کرنے سے روک دیا جائے۔
  7. مضارب کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ رب المال کا سرمایہ کسی دوسرے شخص کو قرض دیدے یا کسی کومفت دے۔ البتہ رب المال کی اجازت سے قرض دے سکتا ہے۔
  8. مضاربت کے معاہدہ میں رب المال کی مالی ذمہ داری اس کے فراہم کردہ سرمائے کی حد تک محدود ہوتی ہے۔ الا یہ کہ اس نے مضارب کو قرض لینے یا ادھار خریدنے کی اجازت دی ہو۔
  9. مضارب کاروبار میں ادھار فروخت کا اختیار رکھتا ہے۔ الا یہ کہ اس کو صاحب سرمایہ روک دے۔

معاہدہ مضاربت کی مدت

  1. مالک سرمایہ یا مضارب دونوں میں سے کوئی ایک فریق یا دونوں معاہدہ کو کسی وقت بھی منسوخ کر سکتے ہیں۔ اگر معاہدہ میں دوسے زائد افراد ہیں تو ان میں معاہدہ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
  2. مضاربت کا معاہدہ ایک خاص عرصہ وقت کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے اور لامحدود مدت کے لئے بھی۔
  3. معاہدہ مضاربت کسی ایک فریق کی موت سے ختم ہو جاتا ہے البتہ دو سے زائد افراد کی صورت میں معاہدہ کو باقی فریق جاری رکھ سکتے ہیں۔
  4. معاہدہ مضاربت پہلے سے طے شدہ شرائط پر مسلسل جاری رکھا جا سکتا ہے۔ مثلا مضاربت کا معاملہ ایک معین عرصہ کے لئے کیا گیا۔ اور جو کام شروع کیا گیا وہ مقررہ مدت سے پہلے ہی ختم ہو گیا اس صورت میں مضاربت سرمایہ کو بقیہ عرصہ کے لئے دوسرے کاروبار میں لگا سکتا ہے۔البتہ اس صورت میں نفع ونقصان کے حوالے سے کچھ اختلاف رائے ہے۔

نفع و نقصان کے احکام

  1. شراکت کے معاملہ میں نقصان کاروبار میں لگائے گئے سرمایہ کے تناسب سے سرمایہ کے مالکوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے چونکہ مضاربت میں سرمایہ ایک فریق لگاتا ہے اس لئے نقصان کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے یعنی کاروبار میں جو بھی ہوگا وہ رب المال کو پورا کرنا ہوگا۔
  2. نفع کی تقسیم معاہدہ مضاربت میں طے شدہ نسبتوں سے ہو گی کسی بھی فریق کے لئے کوئی متعین رقسم پیشگی طے نہیں کی جا سکتی۔
  3. حنفی فقہ کے مطابق راس المال رب المال کے حوالے کرنے سے پہلے نفع کی تقسیم درست نہیں۔
  4. مسلسل جاری کاروبار میں نقصانات کی تلافی نفع سے کی جاتی رہے گی۔ یہاں تک کہ کاروبار ختم کر کے حساب صاف کر لئے جائیں۔
  5. فریقین کے نفع ونقصان کی مقداروں کا تعین کاروبار ختم ہونے پر ہی کی جائے گی۔
  6. کاروبار میں نفع کے حق دار نفع کے مالک اس وقت قرار پائیں گے جب اصول سرمایہ رب المال کو واپس مل جائے خواہ اپنے سرمایہ پر اس کا قبضہ عملا ہو یا قانونا مثلاً اگر ایک فرد کی بنک کے ساتھ مضاربت کا معاہدہ کرے تو اس معاہدے کے اختتام اور نفع کی تقسیم کے لئے یہ کافی ہوگا کہ اصول سرمایہ اس فرد کے کھاتے میں جمع کر دیا جائے یہ قانونی قبضہ ہے۔
  7. نفع سرمایہ میں اضافہ کا باعث ہوگا حقیقی منافع نہ ہونے کی صورت میں مضارب کی محنت کا ازالہ ضروری ہے۔
  8. کاروبار میں کسی قسم کے اختیارات کا حصول یا مختلف تصرفات اورمعاہدات کی اجازت یا کسی قسم کی پابندیاں باہمی رضامندی سے عائد کی جا سکتی ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی:عبدالقیوم ہزاروی

Print Date : 19 April, 2024 01:29:05 PM

Taken From : https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1347/