کسی مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح، شریعتِ مطہرہ کی رو سے نہ صرف ناجائز بلکہ شرعاً باطل و غیر معتبر ہے۔ اس ضمن میں یہ کہنا کہ شریعت نے اس معاملے میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا یا یہ مسئلہ دائرۂ سکوتِ شرعی میں آتا ہے، محض بے بنیاد و غیر علمی دعویٰ ہے، جو نہ صرف نصوصِ قرآنیہ کی صراحت سے ناواقفیت کا مظہر ہے بلکہ علمی دیانت کے خلاف بھی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ اور سورۃ الممتحنہ میں غیر مسلم مردوں سے مسلمان عورتوں کے نکاح کو صریح الفاظ میں ممنوع قرار دیا ہے، تو ایسی صورت میں اس مسئلے میں کسی احتمالی رخصت، تاویل یا اجتہادی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
صورت مسئلہ کے مطابق؛ اگر واقعی آپ نے گھریلو معاملات میں انتہائی کشیدگی اور جھگڑوں کی وجہ سے اپنے شوہر کو بتائے بغیر عدالت میں اس سے علیحدگی کا دعویٰ دائر کیا مگر بعد ازاں عدالتی نوٹس سے وہ باخبر ہو گیا تھا تو اس صورت میں عدالتی فیصلہ سے آپ کا نکاح ختم ہو گیا تھا۔ لہٰذا اب آپ کو سابق شوہر سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں ہے اور آپ کا دوسرا نکاح بعد از عدت بالکل درست اور جائز ہے۔ آپ دوسرے شوہر کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی جاری رکھیں شرعاً جائز ہے اور دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔
مذکورہ صورت کے مطابق اگر آپ کی حالت واقعی غیر اختیاری تھی تو طلاق واقع نہیں ہوئی اس صورت میں یاسر خان کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ آپ اپنی اہلیہ کو نکاح میں واپس لا سکتے ہیں۔
ذوالحلیفہ اہل مدینہ کا میقات ہے اور یہ ان عازمین حج و عمرہ کی بھی میقات ہے جو اس میقات سے ہوکر گزرتے ہیں
ملٹی لیول مارکیٹنگ کے طریقۂ کار پر کام کرنے والی کمپنیوں کا ممبر بننا، دوسروں کو ممبر بنانا، اور اس کے ذریعے مالی فائدے حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ’’فارسیج‘‘ جیسی کمپنی کے ساتھ کسی قسم کا معاملہ کرنا، یا اس کا ممبر بننا جائز نہیں، اور اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔