جواب:
دم درود کرنا جائز ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے :
عن جابر قال نهیٰ رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم عن الرقي فجاء اٰل عمرو بن هزم فقالوا يا رسول الله انه کانت عندنا رُقية نرقي بها من العقرب وانت نهيت عن الرقي فعرضوها عليه فقال ما اري بها باساً من استطاع منکم ان ينفع اخاه فَلْينفعه.
(رواه مسلم)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دم درود سے منع فرمایا ہے تو آل عمرو بن حزم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور درخواست کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس ایک دم ہے اگر بچھو کسی کو ڈنگ مارے تو ہم دم کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا ہے؟ تو انہوں نے وہ الفاظ بیان کیے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں جو کوئی اپنے بھائی کو نفع دے سکتا ہے تو دینا چاہیے۔
معلوم ہوا کہ وہ دم درود جس کے الفاظ قرآن و سنت کے مطابق ہو یعنی شرکیہ نہ ہوں تو وہ جائز ہے۔
جن احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے اس میں جاہلیت کے الفاظ سے منع کیا گیا ہے۔ دم درود کر کے پانی پر پھونکنا یا کسی بیمار پر پھونکنا ہر طرح سے جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔