بہن کے فوت ہوجانے کے بعد اس کا حصہ بھانجی کو دینا کیسا؟


سوال نمبر:6181
اسلام علیکم مفتی صاحب! میرے والد کا ایک گھر ہے ، جس کی قیمت 1 کروڑ 30 لاکھ ہے ، والد اور والدہ کی وفات ہو گئی ہے ، ہم چار 4 بھائی اور ایک 1 بہن ہیں ، بہن کی وفات ہو گئی ان کی 2 بیٹیاں ہیں۔ چاروں بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے ، بہن کی وفات کے بعد ان کے حصے کی رقم اُنکی دونوں بیٹیوں میں تقسیم کر دیں۔ اب کیا حصہ بنےگا رقم کا اس میں آپکی شرعی رہنمائی درکار ہے۔ نیز یہ کے اگر میرے بھائی مان جاتے ہیں ، والد اور والدہ کے گھر سے ملنے والے حصے کی رقم مسجد یا دیگر اسلامی كام میں خرچ کرنے پے تو پھر کیا حصہ بنےگا شکریہ والسلام

  • سائل: Danish saleemمقام: Karachi
  • تاریخ اشاعت: 13 جون 2025ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

وعلیکم السلام! آپ کے بقول والدین وفات پا چکے ہیں اور والد کی طرف سے ترکہ میں ایک گھر جس کی مالیت 1 کروڑ 30 لاکھ روپے ہے۔ ورثاء میں مورث کے چار بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

اگر بیٹی والدین کے بعد فوت ہوئی ہے۔ تو پھر اس کا حصہ نکالا جائے گا جو اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

صورت مسئلہ کے مطابق کل مالیت 13000000 روپے میں سے ہر بیٹے کو 28,88,889 روپے اور بیٹی کو 14,44,444 روپے حصہ ملے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے:

یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ

(النِّسَآء، 4: 11)

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔

اس طرح آپ کی بہن کا حصہ چودہ لاکھ چوالیس ہزار چار سو چوالیس روپے بنتا ہے جو کہ اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ اگر اس کی دو بیٹیوں اور بھائیوں کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے تو دو تہائی 962963 روپے اس کی بیٹیوں کو دے کر باقی حصہ 81481 روپے بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگا۔ اگر چاروں بھائی رضا مند ہوں تو مرحومہ کا پورا حصہ بھی دونوں بیٹیوں میں برابر تقسیم کر سکتے ہیں۔ شرعی طور پر جائز ہے۔

اگر آپ والد کے ترکہ میں ملنے والے گھر کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں تو فوت شدہ بہن کی بیٹیوں کا حصہ انہیں دے کر باقی حصہ فی سبیل اللہ خرچ کر سکتے ہیں۔ مرحومہ بہن کا حصہ آپ اپنی مرضی سے کہیں خرچ نہیں کر سکتے وہ اب ان کی بیٹیوں کا حق ہے۔ اس لیے ان کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ بقیہ حصہ بے شک مکمل یا اس کا کچھ حصہ خیرات کرنا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری