شوہر مال کا مطالبہ کیے بغیر معاملۂ خلع کر لے تو خلع ہوگا یا طلاق؟


سوال نمبر:5825
السلام علیکم مفتی صاحب! ایک میاں بیوی کے درمیان بہت حالات خراب ہوئے، بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی اس نے عدالت میں علیحدگی کا دعوی دائر کیا، وہاں شوہر نے بیوی سے حق مہر اور دئیے گئے دیگر اموال کا مطالبہ کئے بغیر علیحدگی کے پیپر پر دستخط کر دئیے۔ سوال یہ ہے کہ شوہر کے اپنی مرضی سے مال کا مطالبہ کئے بغیر دستخط کرنے سے خلع واقع ہوا یا طلاق ہو گئی ہے؟

  • سائل: محمد نعمان ملکمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 27 اگست 2020ء

زمرہ: خلع کے احکام

جواب:

خلع کا لغوی معنی ایک شے سے دوسری شے نکالنے کا ہے۔ اصطلاحًا خلع کے معنی باہر نکالنے یا اتارنے کے آتے ہیں۔ مثلاً اس نے جوتے اور کپڑے اتارے یا اس نے خود سے جدا کیے چونکہ خلع میں عورت مرد کے رشتہ زوجیت سے باہر آ جاتی ہے اس لیے شرعاً خلع کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے مال لے کر ملکِ نکاح سے دست بردار ہو جائے یعنی مال کے عوض زوجیت کو زائل کر دے۔ علامہ ابن نجیم نے خلع کی درج ذیل تعریف کو زیادہ مناسب اور جامع قرار دیا ہے:

إزَالَةُ مِلْكِ النِّكَاحِ الْمُتَوَقِّفَةُ عَلَى قَبُولِهَا بِلَفْظِ الْخُلْعِ أَوْ مَا فِي مَعْنَاهُ.

خلع یا خلع کے ہم معنی الفاظ کے ذریعے ملکِ نکاح کو زائل کر دینا خلع ہے، اس حال میں کہ یہ ازالہ عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہوتا ہے۔

  1. ابن نجيم، البحر الرائق، كتاب الطلاق، باب الخلع، 4: 77، بيروت: دار المعرفة
  2. حصكفي، الدر المختار، كتاب الطلاق، باب الخلع، 3: 439- 441، بيروت: دار الفكر

اَئمہ فقہ اور علماء کرام نے خلع کے ثبوت کے لیے بطورِ دلیل درج ذیل ارشادِ باری تعالیٰ پیش کیا ہے:

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ.

پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔

البقرة، 2: 229

اسلام میں سب سے پہلا خلع کا واقعہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا ہے جس کے بارے میں متعدد روایات ہیں لیکن اختصار کی خاطر صرف ایک روایت درج ذیل ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنْقِمُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلاَ خُلُقٍ، إِلَّا أَنِّي أَخَافُ الكُفْرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْ عَلَيْهِ، وَأَمَرَهُ فَفَارَقَهَا.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئی کہ یارسول اللہ ! میں ثابت کے دین یا اخلاق کی بنا پر اُن کے پاس رہنے سے انکار نہیں کرتی بلکہ مجھے کفر کاڈر ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اُن کا باغ واپس کردو گی؟ اُس نے جواب دیا: ہاں، لہٰذا اُس نے وہ باغ واپس کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے جدا کرنے کا حکم دیا۔

بخاري، الصحيح، كتاب الطلاق، باب الخلع وكيف الطلاق فيه، 5: 2022، رقم: 4973، بيروت: دار ابن كثير اليمامة

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ اور دیگر روایات میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے اُن کے دین اور اچھے اخلاق کی تعریف کی ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ مجھے کفر کا ڈر ہے یعنی میرا دل ان کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے نفرت پرورش پا رہی ہے اور نتیجہ میں کوئی غلط قدم اٹھنے کا ڈر ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ انہیں قد کاٹھ اور شکل وصورت سے پسند نہیں کرتیں تھیں۔ اس لیے ان کا کہنا کہ مجھے کفر کا ڈر ہے سے مراد یہ بھی ہے کہ میں کفرانِ نعمت نہیں کرنا چاہتی کہ ثابت بن قیس میرے ساتھ اچھا سلوک کریں اور میں اُن کو دل سے پسند نہ کروں۔

معلوم ہوا کہ جب میاں بیوی میں ہم آہنگی پیدا نہ ہو پائے تو تکلیف دہ بندھن قائم رکھنے کی بجائے علیحدگی بہتر ہوتی ہے۔ یہ ناچاقی کسی بھی وجہ سے ہو سکتی ہے یعنی جب شادی کا مقصد فوت ہو رہا ہو اور فریقین کے دلوں میں شدید نفرت پیدا ہو چکی ہو تو زبردستی نکاح کو برقرار رکھنا حکمتِ نکاح کے خلاف ہے۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:

وَإِذَا تَشَاقَّ الزَّوْجَانِ وَخَافَا أَنْ لَا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ تَفْتَدِيَ نَفْسَهَا مِنْهُ بِمَالٍ يَخْلَعُهَا بِهِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: (فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ) فَإِذَا فَعَلَا ذَلِكَ وَقَعَ بِالْخُلْعِ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ وَلَزِمَهَا الْمَالُ.

جب میاں بیوی میں ناچاقی ہو جائے اور دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت مال دے کر خاوند سے جان چھڑا لے، اس لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (سو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں اس میں کہ عورت مال دے کر جان چھڑا لے) پھر جب خاوند نے یہ (مال قبول) کر تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور عورت کو مال دینا لازم ہوگا۔

مرغيناني، الهداية شرح البداية، 2: 13، المكتبة الإسلامية

جب عورت، شوہر کی خرابی کی بناء پر خلع کا مطالبہ کرے تو شوہر کے لیے مال لینا مکروہ ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

إنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِ الزَّوْجِ فَلَا يَحِلُّ لَهُ أَخْذُ شَيْءٍ مِنْ الْعِوَضِ عَلَى الْخُلْعِ وَهَذَا حُكْمُ الدِّيَانَةِ... وَإِنْ كَانَ النُّشُوزُ مِنْ قِبَلِهَا كَرِهْنَا لَهُ أَنْ يَأْخُذَ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا مِنْ الْمَهْرِ وَلَكِنْ مَعَ هَذَا يَجُوزُ أَخْذُ الزِّيَادَةِ فِي الْقَضَاءِ.

اگر نافرمانی شوہر کی طرف سے ہو تو خلع کرنے پر شوہر کے لیے دیانۃً عوض میں کوئی چیز لینا جائز نہیں۔۔۔ اور اگر عورت کی طرف سے نافرمانی ہو تو شوہر کے لیے مہر سے زیادہ رقم وصول کرنا ہمارے ہاں مکرہ ہے، تاہم قضاءً مہر سے زیادہ لینا بھی جائز ہے۔

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع، 1: 488، بيروت: دار الفكر

خلع مرد کے مال لیے بغیر بھی جائز ہے۔ امام علاء الدین حصکفی رحمہ اللہ خلع کے حکم کے بارے میں فرماتے ہیں:

حُكْمُهُ أَنَّ الْوَاقِعَ بِهِ وَلَوْ بِلَا مَالٍ وَبِالطَّلَاقِ الصَّرِيحِ عَلَى مَالٍ طَلَاقٌ بَائِنٌ.

خلع کا حکم یہ ہے کہ اس کے ذریعے طلاقِ بائن واقع ہو گی، اگرچہ وہ مال کے بغیر ہو یا طلاقِ صریح (مال کے بدلے) کیوں نہ ہو۔

حصكفي، الدر المختار، كتاب الطلاق، باب الخلع، 3: 444

مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق جب شوہر نے مطالبۂ خلع پر علیحدگی کے کاغذات پر دستخط کیے تو اس سے خلع واقع ہوا اور زوجین کا نکاح ختم ہوگیا، شوہر کو حق مہر یا دیگر اموال کے مطالبہ کا حق تھا، اگر اس نے یہ حق استعمال نہیں کیا تو اس سے خلع کے معاملے پر فرق نہیں پڑتا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری