سوتیلی دادی کا دودھ پینے سے پھوپھی کی اولاد سے حرمت رضاعت ثابت ہوگی؟


سوال نمبر:5823
مفتی صاحب میرا ایک سوال ہے کہ غلام حسین نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے بیٹا خادم حسین اور بیٹی نذیر مائی پیدا ہوئے۔ خادم حسین کے بیٹے یوسف نے غلام حسین کی دوسری بیوی (سوتیلی دادی)کا مدت رضاعت میں دودھ پیا۔ کیا اب خادم حسین کے بیٹے یوسف کا نکاح نذیر مائی کی بیٹی ثمرین سے ہو سکتا ہے؟

  • سائل: محمد طاہرمقام: بھمبھر، آزاد کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 26 اگست 2020ء

زمرہ: احکام رضاعت

جواب:

اگر ماں کے علاوہ کوئی اور عورت بچے کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلائے تو حرمتِ رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہ دودھ پینے والا بچہ اس عورت کی حقیقی اولاد کی طرح، اس کے اصول وفروع پر حرام ہو جاتا ہے۔ جو مسئلہ آپ نے دریافت کیا ہے اس میں نذیر مائی کی بیٹی، یوسف کی سوتیلی ماں کے فروع میں سے تو نہیں ہے لیکن اس کی چھاتی میں اترنے والا دودھ غلام حسین کے جماع کی وجہ سے ہے، جس مرد کے جماع سے عورت کا دودھ پیددا ہوتا ہے اس کو لبن الفحل کہتے ہیں۔ لبن الفحل کا ثبوت درج ذیل احادیث مبارکہ سے ملتا ہے:

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَفْلَحَ، أَخَا أَبِي القُعَيْسِ جَاءَ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا، وَهُوَ عَمُّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ، بَعْدَ أَنْ نَزَلَ الحِجَابُ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي صَنَعْتُ فَأَمَرَنِي أَنْ آذَنَ لَهُ.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد ابوالقیض کے بھائی افلح نے اندر آنے کی اجازت مانگی جو ان کے رضاعی چچا لگتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا۔ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور جو میں نے کیا تھا وہ عرض کردیا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ انہیں اجازت دے دینا۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب: النكاح، باب: لبن الفحل، 5: 1962، الرقم: 4815، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب: الرضاع، باب: تحريم الرضاعة من ماء الفحل، 2: 1069، الرقم: 1445، بيروت: دار إحياء التراث العربي
  3. أبو داؤد، السنن، كتاب: النكاح، باب في لبن الفحل، 2: 222، الرقم: 2057، بيروت: دار الفكر

مذکورہ بالا روایت کو امام ترمذی، امام نسائی، ابن ماجہ اور دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔ امام ترمذی اس روایت کو نقل کر کے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ كَرِهُوا لَبَنَ الْفَحْلِ وَالْأَصْلُ فِي هَذَا حَدِيثُ عَائِشَةَ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.

یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے انہوں نے لبن فحل (مرد کے دودھ ) کوحرام کہاہے۔ اس باب میں اصل عائشہ کی حدیث ہے۔ اوربعض اہل علم نے لبن فحل (مردکے دودھ) کی رخصت دی ہے۔ پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔

ترمذي، السنن، كتاب الرضاع، باب ما جاء في لبن الفحل، 3: 453، الرقم: 1148، بيروت: دار إحياء التراث العربي

ایک اور روایت میں مزید وضاحت ہے:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَاسْتَأْذَنَ عَلَيَّ فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ، حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنَّهُ عَمُّكِ، فَأْذَنِي لَهُ قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي المَرْأَةُ، وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ عَمُّكِ، فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ قَالَتْ عَائِشَةُ: وَذَلِكَ بَعْدَ أَنْ ضُرِبَ عَلَيْنَا الحِجَابُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الوِلاَدَةِ.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے اور مجھ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا کہ جب تک میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں دریافت نہ کرلوں اجازت نہیں دے سکتی۔ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہارے چچا ہیں انہیں اجازت دے دیا کرو۔ ان کا بیان ہے کہ میں عرض گزار ہوئی: یا رسول اﷲ! مجھے دودھ عورت نے پلایا تھا مرد نے تو نہیں پلایا۔ ان کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں تمہارے پاس ان کے آنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ پردے کا حکم نازل ہو جانے کے بعد کی بات ہے نیز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یہ بھی فرماتی ہیں کہ رضاعت سے بھی وہی رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت (نسب) سے حرام ہوتے ہیں۔

بخاري، الصحيح، كتاب النكاح، باب ما يحل من الدخول والنظر إلى النساء في الرضاع، 5: 2007، الرقم: 4941

حضرت حصفہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا کے بارے میں بھی ایک روایت میں ذکر ہے:

عَنْ عَمْرَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، أَخْبَرَتْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا، وَإِنَّهَا سَمِعَتْ صَوْتَ رَجُلٍ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُرَاهُ فُلَانًا لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ كَانَ فُلَانٌ حَيًّا لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ دَخَلَ عَلَيَّ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الْوِلَادَةُ.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے ایک آواز سنی، کوئی شخص حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آنا چاہتا تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض كيا: یا رسول اللہ! یہ شخص آپ کے حجرے میں آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ کا رضاعی (دودھ شریک) چچا ہے۔ حضرت عائشہ نے عرض كيا: یا رسول اللہ! اگر فلاں شخص زندہ ہوتا جو میرا رضاعی چچا تھا تو کیا وہ بھی میرے پاس آ سکتا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔

مسلم، الصحيح، كتاب الرضاع، باب يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة، 2: 1068، الرقم: 1444

ام سرخسی رحمہ اللہ لبن الفحل کے بارے فرماتے ہیں:

(الرَّضَاعُ مَا أَنْبَتَ اللَّحْمَ وَأَنْشَزَ الْعَظْمَ) وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْحُرْمَةَ بِالرَّضَاعِ كَمَا تَثْبُتُ مِنْ جَانِبِ الْأُمَّهَاتِ تَثْبُتُ مِنْ جَانِبِ الْآبَاءِ وَهُوَ الزَّوْجُ الَّذِي نَزَلَ لَبَنُهَا بِوَطْئِهِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَّهَهُ بِالنَّسَبِ فِي التَّحْرِيمِ، وَالْحُرْمَةُ بِالنَّسَبِ تَثْبُتُ مِنْ الْجَانِبَيْنِ فَكَذَلِكَ بِالرَّضَاعِ، بِخِلَافِ مَا يَقُولُهُ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى، أَنَّ لَبَنَ الْفَحْلِ لَا يُحَرِّمُ وَهُوَ أَحَدُ قَوْلَيْ الشَّافِعِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى.

دودھ پلانا حرمت سبب اس وقت ہوتا ہے جب وہ بچے کا گوشت بنائے اور ہڈی پیدا کرے، اس میں دلیل ہے کہ دودھ کی حرمت جیسے دودھ پالانے والی ماں سے ثابت ہوتی ہے، باپ دادا سے بھی ثابت ہوتی ہے اور وہ رضاعی ماں کا خاوند ہے جس کی صحبت کی وجہ سے رضاعی ماں کا دودھ آیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رضاعت کو حرمت میں نسب سے تشبیہ دی ہے۔ اور حرمت نسبی تو دونوں طرف (ماں اور باپ سے) ثابت ہوتی ہے، اسی طرھ رضاعی بھی دونوں طرف سے ثابت ہوتی ہے۔ اس میں بعض علمائے کرام رحمہ اللہ کا اختلاف ہے کہ مرد کا دودھ حرمت ثابت نہیں کرتا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔

السرخسي، المبسوط، باب الرضاع، 5: 132، بيروت: دار المعرفة

امام ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(زَوْجُ مُرْضِعَةٍ لَبَنُهَا مِنْهُ أَبٌ لِلرَّضِيعِ وَابْنُهُ أَخٌ وَبِنْتُهُ أُخْتٌ وَأَخُوهُ عَمٌّ وَأُخْتُهُ عَمَّةٌ) بَيَانٌ لِأَنَّ لَبَنَ الْفَحْلِ يَتَعَلَّقُ بِهِ التَّحْرِيمُ لِعُمُومِ الْحَدِيثِ الْمَشْهُورِ.

دودھ پلانے والی کا شوہر دودھ پینے والے بچے کا رضاعی باپ ہے، اس (شوہر) کا بیٹا رضاعی بھائی، اس کی بیٹی اس بچے کی بہن، اس کا بھائی بچے کا رضاعی چچا، اس کی بہن پھوپھی، کیونکہ مذکر سے دودھ کا رشتہ بنا ہے، اسی سے حرمت کا تعلق ہے۔ یہ حرمت حدیث مشہور کے عموم سے ثابت ہے۔

ابن نجيم، البحر الرائق، كتاب الرضاع، 3: 242، بيروت: دار المعرفة

علامہ فرید الدین عالم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَالتَّحْرِيْمُ بِالرِّضَاعِ كَمَا يَثْبِتُ مِنْ جَانِبِ الْمَرْأَةِ، يَثْبِتُ مِنْ جَانِبِ الرَّجُلِ، وَهُوَ الزَوْجُ اَلَّذِيْ نَزَلَ لَبْنُهَا بِوَطْئِهِ، وَيُسَمَّيْهِ الْفُقَهَاءُ ’’لَبْنُ الْفَحَلِ‘‘.

رضاعت کی وجہ سے حرمت جس طرح عورت کی طرف سے ثابت ہوتی ہے، اسی طرح مرد کی طرف سے بھی ثابت ہوتی ہے اور وہ خاوند ہے، جس کے جماع سے مرضعہ (دودھ پلانے والی) کا دودھ پیدا ہوا ہے، فقہاء کرام اس کو ’’لبن الفحل‘‘ کا نام دیتے ہیں۔

فريد الدين عالم، الفتاوى التاتار خانية، كتاب الرضاع، 4: 362- 363، الهند: مكتبة زكريا بديوبند

صاحبانِ فتاویٰ ہندیہ فرماتے ہیں:

يُحَرَّمُ عَلَى الرَّضِيعِ أَبَوَاهُ مِنْ الرَّضَاعِ وَأُصُولُهُمَا وَفُرُوعُهُمَا مِنْ النَّسَبِ وَالرَّضَاعِ جَمِيعًا حَتَّى أَنَّ الْمُرْضِعَةَ لَوْ وَلَدَتْ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ أَوْ غَيْرِهِ قَبْلَ هَذَا الْإِرْضَاعِ أَوْ بَعْدَهُ أَوْ أَرْضَعَتْ رَضِيعًا أَوْ وُلِدَ لِهَذَا الرَّجُلِ مِنْ غَيْرِ هَذِهِ الْمَرْأَةِ قَبْلَ هَذَا الْإِرْضَاعِ أَوْ بَعْدَهُ أَوْ أَرْضَعَتْ امْرَأَةٌ مِنْ لَبَنِهِ رَضِيعًا فَالْكُلُّ إخْوَةُ الرَّضِيعِ وَأَخَوَاتُهُ وَأَوْلَادُهُمْ أَوْلَادُ إخْوَتِهِ وَأَخَوَاتِهِ وَأَخُو الرَّجُلِ عَمُّهُ وَأُخْتُهُ عَمَّتُهُ وَأَخُو الْمُرْضِعَةِ خَالُهُ وَأُخْتُهَا خَالَتُهُ.

دودھ پینے والے بچے پر رضاعی ماں باپ اور ان کے اصول وفروع نسبی ہوں یا رضاعی سب حرام ہو جاتے ہیں، حتی کہ دودھ پلانے والی عورت کا موجودہ خاوند سے یا کسی دوسرے سے، دودھ پلانے سے پہلے یا بعد کا بچہ ہو یا اس نے کسی بچے کو دودھ پلایا ہو، یا اس عورت کے خاوند کی کوئی اولاد اس عورت سے ہو یا کسی اور سے ہو، دودھ پلانے سے پہلے کی ہو یا بعد کی ہو، یا کسی عورت نے اس مرد سے اترے ہوئے دودھ کو کسی بچے کو پلایا ہو، تو یہ تمام دودھ پینے والے بچے کے بہن بھائی ہوں گے، اور ان کی اولاد اس بچے کے بھتیجے اور بھانجے ہوں گے، اور اس مرد کا بھائی اس بچے کا چچا اور بہن پھوپھی ہو گی، اور دودھ پلانے والی کا بھائی اس بچے کا ماموں اور بہن خالہ ہوگی۔

الشخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، كتاب الرضاع، 1: 343، بيروت: دار الفكر

علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(وَأُبُوَّةُ زَوْجِ مُرْضِعَةٍ لَبَنُهَا مِنْهُ) الْمُرَادُ بِهِ اللَّبَنُ الَّذِي نَزَلَ مِنْهَا بِسَبَبِ وِلَادَتِهَا مِنْ رَجُلٍ زَوْجٍ أَوْ سَيِّدٍ.

دودھ پلانے والی کے خاوند کا رضاعی باپ ہونا، کہ رضاعی ماں کا دودھ اس شخص کی اُس سے صحبت کی وجہ سے ہو یا باندی ہے تو اس کے مالک کی صحبت سے بچہ پید ہو اور اس کی وجہ سے دودھ آئے۔

ابن عابدین، رد المحتار، باب الرضاع، 3: 213، بيروت: دار الفكر

امام احمد رضا خاں حنفی قادری رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ زید نے ہندہ سے نکاح کیا اس زوجہ سے دو بیٹے حسن وحسین پیدا ہوئے، بعد وفات ہندہ کے زید نے حفصہ سے نکاح کیا اس زوجہ سے چند اولاد پیدا ہوئی اور حفصہ نے اپنی بیٹی زبیدہ کے ساتھ حسین کے بیٹے بکر کو دودھ پلایا۔ پس اس صورت میں بکر کا نکاح حسن کی بیٹی زاہدہ سے موافق شرعِ محمدی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ آپ نے اس کے جواب میں لکھا ہے:

’’تقریرِ سوال سے ظاہر ہے کہ زبیدہ دخترِ زید ہے اور یہ شِیرِ حفصہ کہ بکر نے پیا زید ہی سے تھا، اگر صورتِ واقعہ یہی ہے تو بکر وزاہدہ میں نکاح حرام محض ہے کہ اس تقدیر پر بکر اپنے دادا زید کا بیٹا ہوا اور اس کا بیٹا حسن اس کا سوتیلا بھائی اور حسن کی بیٹی زاہدہ بکر کی سوتیلی بھتیجی، اور بھتیجی اگرچہ سوتیلی ہو چچا پر حرام قطعی ہے۔‘‘

أحمد رضا، فتاوى رضويه، باب: رضاعت، 11: 347- 348، لاهور: رضا فاؤنديشن

بصورتِ مسئلہ جب یوسف نے سوتیلی دادی کا دودھ پیا تو وہ لبن الفحل کی وجہ سے غلام حسین کا رضاعی بیٹا بن گیا اور خادم حسین اور نذیر مائی کا رضاعی بھائی بن گیا، اس طرح نذیر مائی کی بیٹی ثمرین، یوسف کی رضاعی بھانجی بن گئی جبکہ رضاعی بھانجی سے نکاح جائز نہیں ہے۔ لہٰذا یوسف کا ثمرین کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری