کیا مالک کی رضامندی کے بغیر اس کی ملکیتی جائیداد تقسیم کی جاسکتی ہے؟


سوال نمبر:5806
السلام علیکم! میرے والد صاحب کی 4 اولادیں تھیں، 2 پہلی بیوی سے اور 2 دوسری بیوی سے۔ پہلی بیوی کوئی 33 سال پہلے اپنی اولاد سمیت طلاق لیکر الگ ہوگئی۔ اس کے بعد اپنی اولاد کو کبھی والد کے پاس نہیں لائیں۔ میرے والد نابینا ہونے کی وجہ سے خود بھی ان کے پاس نہیں جاسکے یعنی گزشتہ 33 سال سے وہ یا ان کی اولاد میرے والد سے نہیں ملے۔ کچھ دن پہلے میرے والد صاحب کی ایک بہن کا انتقال ہوا، ان کی وصیت تھی کہ ان کی تمام جائیداد ان کے بہن بھائیوں میں برابر برابر تقسیم کی جائے۔ اب میرے والد صاحب کے باقی بہن بھائی کہہ رہے ہیں کہ بہن سے ملنے والا میرے والد کا حصہ ان کو سارا نہیں ملے گا بلکہ جو پہلی اولاد ہے آدھا اس کو ملے گا اور بقیہ میرے والد صاحب کو اور ہمیں ملے گا۔ میرے والد صاحب ابھی اولاد میں یہ حصہ نہیں کرنا چاہتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میرے والد صاحب پر لازم ہے کہ پہلی بیوی سے جو اولاد ہے اس کو حصہ دیں؟

  • سائل: عبدالرحیممقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 14 اکتوبر 2020ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

سائل کے والد محترم کی مرحومہ بہن کی وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ مرحومہ کا ترکہ تقسیمِ وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ شرعی قاعدہ ہے کہ ’لا وصیتَ لِوارثٍ‘ یعنی وارث کے لیے وصیت نہیں کی جاسکتی، اگر کی گئی ہے تو ایسی وصیت پوری نہیں کی جائے گی۔ مرحومہ نے اگر کسی غیروارث کے لیے وصیت کی ہوتی تو زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مالِ وراثت سے پوری کی جاسکتی تھی مگر کیونکہ مرحومہ کی وصیت ورثاء کے لیے کی گئی ہے اس لیے شرعی قاعدہ کے مطابق وصیت پوری نہیں کی جائے گی۔ حضرت شرحبیل بن مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِى حَقٍّ حَقَّهُ فَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ.

اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے۔ لہٰذا وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 267، رقم: 22348، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. أبي داود، السنن، کتاب الوصایا، باب ما جاء فی الوصیة للوارث، 3: 114، رقم: 287٠، بیروت: دارالفکر
  3. ترمذي، السنن، کتاب الوصایا، باب ما جاء لا وصیة لوارث، 4: 433، رقم: 212٠، دار احیاء التراث العربي بیروت

اس لیے اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

اگر مرحومہ کے ورثاء میں صرف بھائی اور بہنیں ہی ہیں تو مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم درج ذیل حکمِ باری تعالیٰ کے مطابق ہوگی:

وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO

اور اگر (بصورتِ کلالہ مرحوم کے) چند بھائی بہن مرد (بھی) اور عورتیں (بھی وارث) ہوں تو پھر (ہر) ایک مرد کا (حصہ) دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہوگا۔ (یہ احکام) اللہ تمہارے لئے کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

النساء، 4: 176

مذکورہ بالا طریقے سے تقسیم کے بعد جو حصہ سائل کے والد محترم کو ملے گا اس کے صرف وہی مالک ہیں اور اس پر ان کا حقِ ملکیت ہے۔ کسی بہن بھائی کو یہ حق نہیں کہ وہ مالک کی رضامندی کے بناء ترکہ سے ملنے والا اس کا حصہ اپنی مرضی سے سائل کے والد کی اولاد میں تقسیم کریں۔

اگر سائل کے والد اپنی ملکیتی مال و زمین اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہیں تو بیٹوں اور بیٹیوں میں برابر تقسیم کریں گے، خواہ وہ پہلی بیوی سے ہوں یا دوسری بیوی سے۔ اگر وہ اپنی زندگی میں تقسیم نہیں کرتے تو ان کے بعد ترکہ کی صورت میں ان کی ملکیتی جائیداد درج ذیل حکمِ باری تعالیٰ کے مطابق تقسیم ہوگی:

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔

النساء، 4: 11

طلاق کے بعد سائل کے والد محترم کی پہلی بیوی جائیداد کی حقدار یا مالِ وراثت میں وارث نہیں رہی لیکن اس سے پیدا ہونے والی اولاد اپنے والد کی جائیداد سے حصہ پائے گی۔ یہ حکمِ خدا وندی ہے۔ احکامِ وراثت کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان احکام پر عمل کرنے کے متعلق فرمایا ہے:

تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ. وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ.

یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کے لئے ذلّت انگیز عذاب ہے۔

النساء، 4: 13-14

اس لیے سائل کے والدِ محترم اگر اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم نہیں کرتے تو ان کے بعد ان کے ترکہ کے طور پر شرعی اصولوں کے مطابق تمام اولاد میں تقسیم ہوگی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری