روزے کے طبی فوائد کیا ہیں؟


سوال نمبر:579
روزے کے طبی فوائد کیا ہیں؟

  • تاریخ اشاعت: 11 فروری 2011ء

زمرہ: عبادات  |  عبادات

جواب:

:  قرآن حکیم میں ہے :

وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo

 البقرة، 2 :  184

’’اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہوo‘‘

اگر ہم اس آیتِ مبارکہ میں بیان حقائق کا طبی نکتہ نظر سے مطالعہ کریں تو یہ واضع ہو جاتا ہے کہ روزہ عبادت کے ساتھ ساتھ صحتِ انسانی کے لئے مفید چیز ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ روزے سے جسم میں کوئی نقص یا کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ روزہ رکھنے سے صرف دو کھانوں کا درمیانی وقفہ ہی معمول سے کچھ زیادہ ہوتا ہے اور درحقیقت 24 گھنٹوں میں جسم کو مجموعی طور پر اتنے حرارے (Calories) اور مائع (پانی) کی مقدار مل جاتی ہے جتنی روزے کے علاوہ دنوں میں ملتی ہے۔ مزید برآں یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ لوگ رمضان میں پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مجموعی غذائیت (حرارے) عا م دنوں کے مقابلے میں جسم کو اکثر زیادہ تعداد میں ملتے ہیں اس کے علاوہ جسم فاضل مادوں کو بھی استعمال کرکے توانائی کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ روزے سے مندرجہ ذیل طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں :

1۔ روزہ سارے نظامِ ہضم کو ایک ماہ کے لئے آرام مہیا کر دیتا ہے۔ درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید اعمال بھی سرانجام دیتا ہے جس کی وجہ سے اس پر تھکن طاری ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف روزہ کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے جو روزہ کے بغیر قطعی ناممکن ہے۔ کیونکہ بے حد معمولی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصے کے برابر بھی اگر معدہ میں داخل ہو جائے تو پورا نظامِ انہضام اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور جگر فوراً مصروفِ عمل ہو جاتا ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے ماہرینِ طب کا دعویٰ ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ ضرور ہونا چاہیے۔

2۔ روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے یہ اثر دل کو نہایت فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خلیوں کے درمیان (Inter Celluler) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے خلیوں کا عمل بڑی حد تک سکون آشنا ہو جاتا ہے۔ لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں (Epitheliead) کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے ہی آرام اور سکون ملتا ہے۔ اسی طرح سے ٹشو یعنی پٹھوں پر دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ پٹھوں پر یہ ڈائسٹالک دباؤ دل کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام کی صورت میں ہوتا ہے۔ مزید برآں آج کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ٹینشن کا شکار ہے۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پر یشر کو کم کرکے انسان کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔

3۔ پھیپھڑے براہِ راست خون صاف کرتے ہیں اس لئے ان پر بلاواسطہ روزے کے اثرات پڑتے ہیں۔ اگر پھیپھڑوں میں خون منجمد ہو جائے تو روزے کی وجہ سے بہت جلد یہ شکایت رفع ہو جاتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ نالیاں صاف ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ روزہ کی حالت میں پھیپھڑے فضلات کو بڑی تیزی کے ساتھ خارج کرتے ہیں اس سے خون اچھی طرح صاف ہونے لگتا ہے اور خون کی صفائی سے تمام نظامِ جسمانی میں صحت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

4۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزے رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے جس سے بآسانی اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہو سکے۔

5۔ خون میں سرخ ذرات کی تعداد زیادہ اور سفید ذرات کی تعداد کم پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق روزے میں حرارتِ جسمانی گر جاتی ہے لیکن جب اصلی بھوک عود کر آتی ہے۔ تو حالتِ جسمانی اصلی حالت کی طرف مائل ہو جاتی ہے اسی طرح جب روزہ کھولا جاتا ہے اور غذا استعمال ہوتی ہے تو حرارتِ جسمانی میں کسی قدر اضافہ ہو جاتا ہے روزہ رکھنے کے بعد خون کی صفائی کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔ قلت الام (یمینا) کی حالت میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ خون کے سرخ خلیات کی تعداد میں ترقی ہو جاتی ہے ایک مشاہدہ کے مطابق معلوم ہوا کہ صرف 12 دن کے روزوں کے تسلسل کی وجہ سے خون کے خلیات کی تعداد 5 لاکھ سے بڑھ کر 36 لاکھ تک پہنچ گئی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔