محض والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5578
مفتی صاحب! شادی کے بعد گھر میں بلاوجہ جھگڑے ہوئے ہوں جن کو بنیاد بنا کر اگر والدین یا بہن بھائی اپنے بیٹے یا بھائی سے یہ کہیں کہ تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو، حالانکہ قصور دونوں طرف سے ہو تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے کیا حکم ہے؟

  • سائل: خالد اسحاقمقام: کوئٹہ
  • تاریخ اشاعت: 07 نومبر 2019ء

زمرہ: طلاق

جواب:

شریعت اسلامی میں عقدِ نکاح کی حیثیت محض ایک مرد و عورت کے ملاپ کی نہیں بلکہ یہ خاندان کی بنیاد ہے۔ نکاح عفت، برکت، افزائش نسل، پاکیزگی، عنایت، معاشرتی اقدار کے فروغ اور اولادِ صالح کے حصول کا ذریعہ اور بدکاری، خباثت، تباہی، گناہوں، آفتوں، بےبرکتی، نسل کُشی اور عذاب آخرت سے بچاؤ کی الہامی تدبیر ہے۔ یہ بندھن میاں بیوی، اولاد، خاندان، معاشرے اور دنیا و آخرت کی کئی مصلحتوں اور فوائد کی بنیاد بنتا ہے، اسے توڑنا ان تمام فوائد اور مصلحتوں کو منہدم کردیتا ہے۔ طلاق سے خاوند، بیوی، بچوں حتیٰ کہ معاشرے بھی طلاق کے بعد رونما ہونے والے نقصانات سے متاثر ہوتا ہے۔

اسلام میں طلاق ایک رجعت اور ضرورت کے تحت مکروہ فعل کے طور پر جائز قرار دی گئی ہے مگر شریعت اسے پسند نہیں کرتی ہے۔ حضرت محارب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَا أَحَلَّ اﷲُ شَیْئاً أَبْغَضَ إِلَیْهِ مِنَ الطَّلاَقِ.

اﷲ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے ان میں اُس کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے۔

ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب فی کراهیة الطلاق، 2: 225، رقم: 2177

طلاق کی کراہت اور ناپسندیدگی کا اندازہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت سے بھی ہوتا ہے کہ:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ إِبْلِيسَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَی الْمَاءِ ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً يَجِيئُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ فَعَلْتُ کَذَا وَکَذَا فَيَقُولُ مَا صَنَعْتَ شَيْئًا قَالَ ثُمَّ يَجِيئُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ مَا تَرَکْتُهُ حَتَّی فَرَّقْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ قَالَ فَيُدْنِيهِ مِنْهُ وَيَقُولُ نِعْمَ أَنْتَ قَالَ الْأَعْمَشُ أُرَاهُ قَالَ فَيَلْتَزِمُهُ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے پس اس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں ان سے بڑا ہو ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا تو شیطان کہتا ہے تو نے کوئی (بڑا کام) سر انجام نہیں دیا پھر ان میں سے ایک (اور) آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے (فلاں آدمی) کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوا دی شیطان اسے اپنے قریب کر کے کہتا ہے ہاں !تو ہے(جس نے بڑا کام کیا ہے) اعمش نے کہا میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا وہ اسے اپنے سے چمٹا لیتا ہے۔

مسلم، الصحیح، جلد سوم، حدیث: 2605

ازدواجی رشتے کو توڑنا ابلیس کی نظر میں اتنا اہم ہے کہ وہ لوگوں سے دوسرے مختلف گناہ کرانے والے اپنے بہت سے کارندوں کی کوئی تعریف نہیں کرتا، لیکن میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے والے کارندوں کی نہ صرف تعریف کرتا ہے، بلکہ انہیں اس پر انعام بھی دیتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بات شیطان کے نزدیک اتنی اہم کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ازدواجی رشتے کو توڑ کر وہ نہ صرف دو انسانوں بلکہ بچوں، والدین، رشتہ داروں، پیاروں اور ایک لحاظ سے پورے معاشرے کی زندگیوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ چونکہ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، اس لیے ٹوٹے ہوئے خاندانوں کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ معاشرہ شدید بگاڑ کا شکار ہے۔ طلاق پر عمل درآمد کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان ان تمام عوامل پر غور کرے جو اس کا نتیجہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس میں زوجین کو ذاتی زندگی کے علاوہ ان کے بچوں کے معاملات، آئندہ کی زوجیت کے معاملات، معاشرت اور معاش کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی آئندہ زندگی کا شریکِ حیات سابقہ زوجیت کے معیار پر پورا اتر سکے گا یا نہیں! لہٰذا ان نتائج تک پہنچنے سے پہلے اپنی اصلاح کرے تو یقینا طلاق تک جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور عقل و حکمت کو نظر انداز نہ کرنے کے باوجود میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور شدید غیرہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ شیطان انسانوں اورجنوں میں سے اپنے کارندوں کے ذریعے ایسی صورت حال سے غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ان کے دلوں میں مسلسل بُرے خیالات کے وسوے ڈال کر انہیں ایک دوسرے کے خلاف کرسکتا ہے۔ ایسی صورت حال کے نتیجے میں یہ رائے بن سکتی ہے کہ ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے یہ شادی زیادہ عرصہ قائم نہ رہے گی۔ لہٰذا اگر ایسی صورت حال میں نبھاؤ کی کوئی امید باقی نہ رہے اور پُرامن ماحول قائم نہ کیا جاسکے تو آخری چارہ کار کے طورپر طلاق کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔

قرآن کریم کئی مقامات پر یہ بتاتا ہے کہ ایسی حساس صورت حال میں داخل ہونے والے جوڑوں کوکیسا طرزِعمل اختیارکرنا چاہیے حتی کہ طلاق کے نام سے ایک پوری سورت ہے۔ فخر انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا پنی احادیث مبارکہ کے ذریعے متعلقہ آیات مبارکہ کی تشریح و توضیح فرمائی ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طلاق کوئی سادہ سا معاملہ نہیں بلکہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے۔ اس لیے طلاق کے بارے میں عقل، منطق، صحیح فیصلے اور ضمیر کی ہدایت کی روشنی میں جذباتیت اور اناپرستی سے آزاد ہوکر جائز حدود میں رہتے ہوئے صرف اسی وقت سوچنا چاہیے جب ازدواجی رشتہ کو برقرار رکھنے کے لیے ہر کوشش کی جاچکے، لیکن اس کے باوجود امید کی کوئی کرن نظر نہ آئے۔

اس لیے اگر آپ بغیر کسی معقول وجہ کے محض والدین، بہن بھائیوں یا رشتےداروں کے کہنے پر بیوی کو طلاق دیں گے تو خدا تعالیٰ کی عدالت میں جوابدہ ہوں گے۔ اگر بیوی میں کوئی خرابی نہیں ہے تو اسے طلاق دینا گناہ ہے اور گھر والوں کے کہنے پر گناہ کا عمل کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے کیونکہ حدیث مبارکہ ہے:

عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ کی جائے۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 131، رقم: 1095، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. عبد الرزاق، المصنف، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة ، 2: 383، رقم: 3788، بیروت: المکتب الاسلامي

اس لیے آپ بغیر وجہ کے اپنی بیوی کو طلاق نہ دیں اور مصالحت کی کوئی صورت اختیار کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری