کیا راستے سے ملنے والی شئے کا صدقہ کیا جاسکتا ہے؟


سوال نمبر:5571
السلام علیکم! میرے گھر ایک بکری بچہ آیا۔ کوئی بھی اسے اپنانا نہیں چاہتا، اس کا کیا کروں؟ اللہ کے نام پہ دے دوں یا خود لے لوں؟

  • سائل: فیصل لاشارریمقام: نامعلوم
  • تاریخ اشاعت: 21 اگست 2019ء

زمرہ: صدقات

جواب:

ایک حدیث مبارکہ جو حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گری پڑی چیز کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کی تھیلی اور اس کے سربندھن کو پہچان لو، پھر سال بھر اس کی تشہیر کرو۔ یزید کہتے کہ اگر کوئی نہ پہچانے تو پانے والا خرچ کر لے اور وہ اُس کے پاس امانت ہو گی۔ یہ یحییٰ کا بیان ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے یا کچھ اپنے پاس سے کہا ہے۔ پھر وہ عرض گزار ہوا کہ گم شدہ بکری کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ يَزِيدُ: وَهِيَ تُعَرَّفُ أَيْضًا، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ تَرَى فِي ضَالَّةِ الإِبِلِ؟ قَالَ: فَقَالَ: دَعْهَا فَإِنَّ مَعَهَا حِذَاءَهَا وَسِقَاءَهَا، تَرِدُ المَاءَ، وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَجِدَهَا رَبُّهَا.

وہ تمہارے لیے ہے یا تمہارے بھائی کے لیے یا بھیڑیئے کے لیے ہے۔ زید نے کہا کہ اُس کی بھی تشہیر کرے۔ پھر عرض گزار ہوا کہ گم شدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: اسے چھوڑو کیونکہ اس کا توشہ دان اور مشکیزہ اس کے ساتھ ہے۔ پانی کے پاس جائے گا اور درخت کھائے گا یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے گا۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب في اللقطة، باب ضالة الغنم، 2: 856، رقم: 2296، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب اللقطة، 3: 1348، رقم: 1722، بيروت: دار إحياء التراث العربي

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ گمشدہ چیز ملنے پر ایک سال تک اس کی تشہیر کی جائے پھر جب مالک نہ آئے تو ضرورت مند آدمی خود بھی استعمال کر سکتا ہے اور غنی ہو تو صدقہ کرے گا کیونکہ ایسا نہ کیا تو وہ چیز ضائع ہو جائے گی جیسا کہ بکری کے بارے میں فرمایا کہ وہ تمہارے لیے ہے یا تمہارے بھائی کے لیے ہے یا بھیڑئیے کے لیے ہے جبکہ اونٹ کے لیے یہ حکم نہیں ہے کیونکہ اونٹ آزادانہ چل پھر کر کھا پی سکتا ہے اور اپنی حفاظت بھی کر سکتا ہے۔ اس مراد یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جس کے خراب ہونے کا خطرہ نہ ہو اسے نہیں اٹھانا چاہیے تاکہ اس کا مالک آ کر اُسے حاصل کر لے۔ فقہاء کرام گمشدہ شئے کے بارے میں فرماتے ہیں:

إنْ كَانَ الْمُلْتَقِطُ مُحْتَاجًا فَلَهُ أَنْ يَصْرِفَ اللُّقَطَةَ إلَى نَفْسِهِ بَعْدَ التَّعْرِيفِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ، وَإِنْ كَانَ الْمُلْتَقِطُ غَنِيًّا لَا يَصْرِفُهَا إلَى نَفْسِهِ بَلْ يَتَصَدَّقُ عَلَى أَجْنَبِيٍّ أَوْ أَبَوَيْهِ أَوْ وَلَدِهِ أَوْ زَوْجَتِهِ إذَا كَانُوا فُقَرَاءَ.

لقط (گمشدہ چیز) اٹھانے والا اگر ضرورت مند (فقیر) ہو تو لقط کی تشہیر کی مدت گزرنے کے بعد اسے اپنے آپ پر خرچ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور اگر غنی ہو تو اپنے آپ پر خرچ نہیں کرے گا، بلکہ اس کو صدقہ کرے چاہے کسی اجنبی پر ہو یا اپنے والدین پر یا اپنی اولاد یا اپنی بیوی پر، جب کہ وہ فقراء ہوں۔

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 2: 291، بيروت: دار الفكر

در بالا تصریحات کی رو سے اولاً آپ اس بکری کے بچے کی تشہیر کریں، اعلان کروائیں، ہمسایوں کو آگاہ کریں۔ اگر کوئی دعویدار سامنے آئے تو تحقیق کے بعد اس کے حوالے کر دیں۔ اگر کوئی دعویدار نہ ہو تو دو صورتیں ہیں: آپ خود ضرورت مند ہیں تو آپ رکھ لیں، صاحبِ مال ہیں تو صدقہ کر دیں‘ اللہ تعالیٰ آپ کو صدقے کا اجر دے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری