کیا ایک رکعت میں‌ ایک سورت دو یا زیادہ مرتبہ پڑھی جاسکتی ہے؟


سوال نمبر:5474
السلام علیکم! فرض نماز میں ایک سورت کو ایک سے زائد مرتبہ ایک ہی رکعت میں پڑھنا یا چاروں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ مثلاً ایک ہی رکعت میں چار پانچ یا زیادہ بار سورت اخلاص پڑھ لیں۔ اسی طرح نفل کے بارے کیا حکم ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک شخص کو احتلام ہوا لیکن صبح اسکو یاد نہ رہا اس نے وضو کیا سحری کی اور مسجد جا کر تہجد ادا کی، قرآن پڑھتا رہا اذان کے بعد سنت نماز ادا کی اور جماعت کھڑی ہونے سے تھوڑی دیر پہلے اسکو یاد آگیا لیکن بوجوہ اس نے نماز باجماعت ادا کر لی. پھر گھر آکر سورج طلوع ہونے کے بعد غسل کر کے بعد دوبار نماز ادا کر لی۔ اس کی نماز اور روزے کے متعلق تفصیل سے آگاہ کریں۔ شکریہ اللہ آپکو جزائے خیر عطاء فرمائے۔

  • سائل: رانا اعجازمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 05 جولائی 2019ء

زمرہ: نماز

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ فرائض کی پہلی دو رکعات میں ہی سورۃ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانا ہوتی ہے، اس لیے چاروں میں نہیں بلکہ پہلی دو رکعتوں میں آپ ایک ہی سورت پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح نوافل کی چاروں رکعات میں نمازی ایک ہی سورت پڑھ سکتا ہے یا ایک رکعت میں ایک سورت کو دو یا زیادہ بار پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ خواہ فرائض کی ادائیگی ہو یا نوافل کی۔ لیکن جب باجماعت نماز ادا کر رہے ہوں تو امام کو اختصار کی خاطر ایک سورت ایک ہی بار تلاوت کرنی چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ، فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ.

جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ ان میں کمزور، بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو اسے جتنا چاہے طول دے۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب الجماعة والإمامة، باب إذا صلى لنفسه فليطول ما شاء، 1: 248، رقم: 671، بيروت: دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام، 1: 341، رقم: 467، بيروت: دار إحياء التراث العربي

اس لیے منفرد سورۃ فاتحہ کے ساتھ چھوٹی سورت پانچ، دس یا زیادہ مرتبہ بھی پڑھ سکتا ہے۔

2۔ حالتِ جنابت میں اس شخص کی سحری تو ہوگئی لیکن اس کا مسجد میں جا کر تلاوت کرنا اور یاد آ جانے کے باوجود نماز میں شامل ہو جانا گناہ کبیرہ ہے۔ بعض فقہاء نے تو اسے کفر بھی کہا ہے لیکن ہم گناہ کبیرہ کہیں گے کیونکہ بلا طہارت نماز پڑھ کر اس نے نماز کا مذاق اڑانے کا قصد نہیں کیا تھا۔ ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تائب ہو اور آئندہ ایسا کرنے سے اجتناب کرے۔

اگر سحری کے وقت کی کمی کے باعث غسلِ جنابت ممکن نہ ہو تو وضو کر کے سحری کی جاسکتی ہے۔ حضرت مالک بن عبادہ غافقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت جنابت میں کھانا تناول فرمایا میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لیکر پہنچے اور عرض کئے یا رسول اللہ اِنہوں نے مجھ کو بتایا کہ آپ نے حالت جنابت میں تناول فرمایا ہے ۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا:

نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأْتُ أَكَلْتُ وَشَرِبْتُ وَلَكِنِّي لَا أُصَلِّي وَلَا أَقْرَأُ حَتَّى أَغْتَسِلَ.

ہاں !جب میں وضو کرلیتا ہوں تو کھاتا اور پیتا ہوں لیکن نماز نہیں پڑھتا اور نہ تلاوت کرتا ہوں یہاں کہ غسل کرلوں۔

الطحاوي، شرح معاني الآثار، باب ذكر الجنب والحائض والذي ليس على وضوء وقراءتهم القرآن، 1: 88، بيروت: دار الكتب العلمية

مختصر یہ کہ مذکورہ شخص نے بلاعذرِ شرعی غسل کے بغیر نماز پڑھ کر گناہِ کبیرہ کیا ہے، وہ اس عمل پر توبہ کرے اور غسل کر کے نماز دوبارہ ادا کرے۔ تاہم اس کی سحری اور روزہ درست ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری