تقسیم وراثت کے ضمن میں‌ اسلام کا وضع کردہ نظام کیا ہے؟


سوال نمبر:5390
ہمارے معاشرے میں میت کے ترکہ میں صرف اولاد اور زوج حصہ دار ہوتے ہیں جبکہ میت کے والدین، ساس، سسر، بہن بھائی اور دیگر سسرالی رشتہ داروں کے متعلق کیا حکم ہے؟

  • سائل: شیریں‌ تنویرمقام: اسلام آباد
  • تاریخ اشاعت: 11 مئی 2019ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

ہمارے معاشرے میں جس طرح دیگر قوانین پر عملدر آمد نہیں ہو رہا اسی طرح وراثت کے متعلق قوانین بھی عملاً غیر مؤثر ہیں۔ اسلام نے تقسیمِ وراثت کا مکمل نظام وضع کیا ہے اور قرآن و حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ ورثاء کے حصے بیان کیے گئے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًاo

مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔

النساء، 4: 7

اسی طرح تقسیم وراثت کے موقع پر غیر وارث رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًاo

اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو۔

النساء، 4: 8

بیٹے، بیٹیوں، والدین، شوہر، بیویوں، بھائیوں اور بہنوں کو وراثت سے حصے دینے کے احکامات درج ذیل ارشاداتِ الہٰیہ سے واضح ہوتے ہیں:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاo

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور مُورِث کے ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لیے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔

النساء، 4: 11

مزید فرمایا:

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌo

اور تمہارے لیے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لیے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے۔

النساء، 4: 12

ایسا شخص جس کی اولاد نہ ہو اور والدین بھی پہلے فوت ہو چکے ہوں تو اس کی وراثت تقسیم کرنے کا طریقہ کار درج ذیل فرمانِ باری تعالیٰ سے ثابت ہے:

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌo

لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجیے کہ اﷲ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور (اگر اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اس کا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر (کلالہ بھائی کی موت پر) دو (بہنیں وارث) ہوں تو ان کے لیے اس (مال) کا دو تہائی (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور اگر (بصورتِ کلالہ مرحوم کے) چند بھائی بہن مرد (بھی) اور عورتیں (بھی وارث) ہوں تو پھر (ہر) ایک مرد کا (حصہ) دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہوگا۔ (یہ احکام) اﷲ تمہارے لیے کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو، اور اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

النساء، 4: 176

اور جدہ یعنی دادی اور نانی کو چھٹا حصہ ملنے کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَّثَ جَدَّةً سُدُسًا.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وراثت سے جدہ (دادی یا نانی) کو چھٹا حصہ دیا۔

ابن ماجه، السنن، 2: 910، رقم: 2725، بيروت: دار الفكر

اصحابِ فرائض کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد باقی مال میت کے قریبی مرد کو بطورِ عصبہ ملتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ.

میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب الفرائض، باب ميراث الولد من أبيه وأمه، 6: 2476، رقم: 6351، دار ابن كثير اليمامة
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الفرائض، باب ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فلأولى رجل ذكر، 3: 1233، رقم: 1615، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث

وراثت کے حوالے سے قرآن وحدیث میں مزید تفصیلات بھی وضاحت سے بیان کی گئی ہیں لیکن اختصار کی خاطر انہی تصریحات پر اکتفاء کیا ہے۔ مگر ہم قانون وراثت کا نچوڑ اور تقسیم ترکہ کی ترتیب مختصر انداز میں بیان کر دیتے ہیں:

  1. سب سے پہلے میت کے قابلِ تقسیم ترکہ سے ذوی الفروض (اصحابِ فرائض) کو حصہ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ ورثاء ہیں جن کے حصے قرآنِ مجید میں مقرر ہیں۔ان ورثاء میں باپ، دادا اوپر تک، اخیافی (ماں شریک) بھائی، شوہر، بیوی، بیٹی، پوتی نیچے تک، حقیقی بہن، علاتی (باپ شریک) بہن، اخیافی بہن، ماں اور جدہ (دادی اور نانی) اوپر تک شامل ہیں۔
  2. اصحابِ فرائض کے بعد عصبہ نسبی حصہ پاتے ہیں۔ یہ میت کے وہ ورثاء ہیں جن کو اصحابِ فرائض سے بچا ہوا تمام مال مل جاتا ہے اور اصحابِ فرائض نہ ہونے کی صورت میں تمام ترکہ ہی ان کو ملتا ہے۔ عصبہ کی دوقسمیں ہیں: عصبہ نسبی اور عصبہ سببی‘ عصبہ نسبی وہ ہیں جن کا میت سے ولادت کا تعلق ہو اور عصبہ سببی وہ ہیں جن کا میت سے عتاق (غلامی) کا تعلق ہو۔ لیکن آج کل عصبہ کی یہ دوسری قسم ختم ہو چکی ہے۔ عصبہ نسبی کی مزید تین اقسام ہیں:عصبہ بنفسہ، عصبہ بغیرہ اور عصبہ مع غیرہ۔
  3. اصحابِ فرائض اور عصبہ نسبی نہ ہوں تو ترکہ عصبہ سببی کو ملتا ہے۔ عصبہ سببی، غلام کو آزاد کرنے والا ہے جو آج کل نہیں ہے۔
  4. اگر کسی بھی قسم کے عصبہ نہ ہوں تو باقی مال دوبارہ نسبی اصحابِ فرائض میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل کو رد کہتے ہیں لیکن اس میں زوجین کو شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ سببی یعنی رشتہ زوجیت کے سبب وارث ہوتے ہیں۔
  5. اگر اصحابِ فرائض اور عصبات میں سے کوئی وارث زندہ نہ ہو تو ذوی الارحام کو ترکہ ملتا ہے۔ یہ میت کے وہ رشتہ دار ہیں جن کا حصہ قرآن وحدیث میں مقرر نہیں ہے، نہ اجماع سے طے پایا ہے اور نہ وہ عصبات ہیں، جیسے پھوپھی، خالہ، ماموں، بھانجہ اور نواسہ وغیرہ۔
  6. اگر ذوی الارحام بھی نہ ہوں تو مولی الموالات کو ترکہ ملتا ہے۔ فقہ کی اصطلاح ایک خاص قسم کے معاہدہ کو موالات کہتے ہیں۔ میراث میں یہ عقد احناف کے ہاں معتبر ہے جبکہ شوافع کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔ اس کے مولی بننے کی کچھ شرائط ہیں لیکن یہاں تفصلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
  7. مذکورہ بالا ورثاء میں سے کوئی نہ ہو تو وہ شخص وارث ہو گا جس کے لیے میت نے اپنے غیر سے نسب کا اقرار کیا ہو یعنی کسی مجہول النسب کے بارے میں یہ کہا ہو کہ یہ میرا بھائی یا چچا ہے، اور اس کے اس اقرار سے اس کا نسب اس غیر سے ثابت نہ ہوا ہو، اور اقرار کرنے والے نے اپنے اقرار سے موت تک رجوع بھی نہ کیا ہو تو وہ مقرلہ بھائی یا چچا ہونے کی حثیت سے وارث ہو گا۔ اس کی بھی کچھ شرائط ہیں۔
  8. اگر مذکورہ بالا ورثاء میں سے کوئی نہ ہو اور میت نے کسی کے لیے ایک تہائی سے زائد یا سارے ترکہ کی وصیت کی ہو تو تہائی سے زائد یا سارا ترکہ اسی کو دے دیا جائے گا۔
  9. اگر مذکورہ بالا تمام لوگوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو میت کا ترکہ بیت المال میں جمع کروا دیا جائے گا۔

آخر میں ایک قابل توجہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ وراثت سے حصہ پانے کے لیے وارث اور مورث کا دین ایک ہونا ضروری ہے کیونکہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاَ يَرِثُ المُسْلِمُ الكَافِرَ وَلاَ الكَافِرُ المُسْلِمَ.

مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہوتا اور نہ ہی کافر کسی مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے۔

بخاري، الصحيح، كتاب الفرائض، باب لا يرث المسلم الكافر ولا الكافر المسلم وإذا أسلم قبل أن يقسم الميراث فلا ميراث له، 6: 2484، رقم: 6383

مذکورہ بیان کردہ ترتیب سے ہی ورثاء میں حصے تقسیم کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ بعض اوقات کچھ ورثاء کی موجودگی میں کچھ دوسرے ورثاء محروم ہوجاتے ہیں، جیسے قریبی وارث کی موجودگی میں دور والا وارث محروم ہو جاتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری