پیشگی قیمت ادا کر کے معینہ مدت کے بعد شے وصول کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:5003
السلام علیکم! ایک کمپنی کی طرف سے یہ پیشکش کی جاتی ہے اگر دکاندار آج ایک لاکھ روپے جمع کروائیں تو 3 ماہ بعد وہ مال سپلائی کریں گے۔ جس کی اُس وقت بازاری قیمت بڑھنے کا امکان ہے۔ کیا ایسی ایڈوانس بکنگ جائز ہے؟

  • سائل: محمد ارشد خلیلمقام: جتوئی، مظفرگڑھ
  • تاریخ اشاعت: 06 ستمبر 2018ء

زمرہ: بیع سلم

جواب:

ایسی خرید و فرخت جس میں کسی شے کی قیمت پہلے ادا کر دی جائے اور شے بعد میں وصول کی جائے‘ بیع سلم کہلاتی ہے۔ بیع سلم کو بیع سلف بھی کہا جاتا ہے۔ خرید و فروخت کی یہ قسم اسلام سے پہلے بھی رائج تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں کچھ بنیادی اصلاحات کر کے اسے جاری رکھا۔ عموماً اس ادھار لین دین بھی خیال کیا جاتا ہے۔ ادھار لین دین کے بارے میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ اس قسم کی خرید و فروخت تحریری ہو تاکہ مستقبل میں فریقین کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہونے کا خدشہ نہ رہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ.

اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے۔

البقره، 2: 282

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:

قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَيْنِ وَالثَّلَاثَ فَقَالَ مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ.

نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ لوگ کھجوروں میں دو یا تین سال کے لیے سلف (بيع سلم) کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص قیمت پہلے وصول کرے تو مبیع (جو چیز خریدی جا رہی ہو) کی مقدار، وزن اور وقت ادائیگی مقرر ہونا چاہیے۔

بخاري، الصحيح، كتاب السلم، باب السلم في وزن معلوم، 2: 781، رقم: 2125، بيروت ، لبنان: دار ابن کثير اليمامة

اسی طرح محمد بن ابو المجالد اور عبداﷲ بن ابو المجالد سے روایت ہے کہ عبداﷲ بن شداد بن الہاد اور ابو بردہ میں سلف کے متعلق اختلاف ہو گیا تو انہوں نے مجھے حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا تو میں نے ان سے پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا:

إِنَّا كُنَّا نُسْلِفُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فِي الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ وَسَأَلْتُ ابْنَ أَبْزَى فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ.

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صديق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے عہد مبارک میں ،گندم، جو، کشمش اور کھجوروں میں سلف (بيع سلم) کیا کرتے تھے ۔ اور میں نے حضرت ابن ابزیٰ سے پوچھا تو انہوں نے بھی اسی طرح فرمایا۔

بخاري، الصحيح، كتاب السلم، باب السلم في وزن معلوم، 2: 782، رقم: 2127

بیع سلم میں شئے کی تمام خصوصیات، قیمت اور ادائیگی کے وقت کا تعین کرنے کے بعد اُسے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جیسے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ أَسْلَفَ فِى شَىْءٍ فَلاَ يَصْرِفْهُ إِلَى غَيْرِهِ.

جو کسی چیز کی پیشگی قیمت دے تو اسے دوسری چیز کی طرف نہ پھیرے۔

أبوداود، السنن، كتاب الطلاق تفريع أبواب الطلاق، باب في الخلع، 2: 268، بيروت: دار الفكر

مذکورہ بالا تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ پیشگی (Advance) قیمت ادا کر کے معینہ مدت کے بعد شے خریدنا شرعاً جائز ہے۔ لیکن اس خرید و فروخت کے تمام عوامل تحریر کر لیے جائیں تاکہ بعد میں کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری