کیا اموال تقسیم کرتے ہوئے اولاد کے درمیان عدل نہ کرنے والا گناہگار ہے؟


سوال نمبر:4984
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی کے والد صاحب فوت ہو جائیں اور وہ مرنے سے پہلے اپنی جائیداد کا بٹوارہ اپنی اولاد میں اس طریقے سے کر جائیں کہ کسی کو کم یا زیادہ دے جائیں تو کیا وہ گناہگار ہوں گے یا نہیں؟

  • سائل: غلام فریدمقام: ڈیرہ غازی خان
  • تاریخ اشاعت: 31 اگست 2018ء

زمرہ: ہبہ/ ہدیہ

جواب:

اگر کوئی شخص تمام اولاد کے مشورے سے غریب اور مالی طور پر کمزور بیٹے یا بیٹی کو باقیوں سے زیادہ حصہ دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔

اس کے برعکس اگر والد ناانصافی کرتے ہوئے کسی اولاد کو کم دیتا ہے یا بالکل ہی محروم کر دیتا ہے اور کسی کو زیادہ یا سارا مال ہی دے دیتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولاد کے درمیان عدم مساوات سے سخت منع فرمایا اور والدین کو حکم دیا ہے اپنی زندگی میں اموال تقسیم کرتے ہوئے تمام اولاد میں مساوات برتیں اور سب کو برابر دیں۔ والدین کے وصال کے بعد ان کے نام پر موجود جائیداد یا اموال‘ وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوں گے یعنی بیٹی کو ایک اور بیٹے کو دو حصے۔ اگر والد نے ناانصافی کی ہے اور کسی اولاد کو محروم کیا ہے تو اسے قانونی چارہ جوئی کر کے اپنا حصہ لینا چاہیے۔ اس صورت میں والد خدا تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

والدین باقی اولاد کو محروم کر کے جائیداد ایک بیٹے کے نام کر دیں‌ تو کیا حکم ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری