قرض کی زکوٰۃ مقروض پر ہے یا قرض‌ خواہ پر؟


سوال نمبر:4963
السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کہ کتنے روپے سال بھر پڑے رہیں تو زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ میں اپنے بھائی کو ایک لاکھ کا قرض‌ دے رکھا ہے تو اس کی زکوٰۃ مجھ پر واجب ہے یا میرے بھائی پر؟ اسی طرح‌ اگر مجھ پر قرض ہو تو پھر زکوٰۃ‌ کا کیا حکم ہے؟

  • سائل: اعجاز احمدمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 09 اگست 2018ء

زمرہ: زکوۃ

جواب:

جب کسی عاقل، بالغ، مسلمان کے پاس کم از کم ساڑھے سات تولے سونا یا اس کی بازاری قیمت کے برابر روپے و مالِ تجارت ہو اور ایک سال تک اس کی ملکیت میں رہے تو سال مکمل ہونے پر اس میں سے اڑھائی فیصد (%2.5) زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔ مثال کے طور پر اگر ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت تین لاکھ روپے ہے اور کسی شخص کے پاس تین لاکھ یا اس سے زیادہ روپے یا مالِ تجارت موجود ہے، اگر ایک سال تک یہ روپے یا مالِ تجارت تین لاکھ کی حد سے کم نہیں ہوتے تو سال مکمل ہونے پر وہ زکوٰۃ ادا کرے گا۔

نصابِ زکوٰۃ کا اندازہ لگاتے ہوئے اسی مال کو شمار کیا جائے گا جس میں صاحبِ مال کو مکمل تصرف (قبضہ و استعمال کا اختیار) ہو۔ اگر صاحبِ مال نے کسی کو قرض دے رکھا ہے اور اس کے ملنے کی امید ہے تو اسے بھی نصاب میں شامل (include) کیا جائے گا۔ اگر صاحبِ مال خود مقروض ہے تو قرض کو نصاب سے منہا (deduct) کیا جائے گا، قرض کو منہا کرنے کے بعد مال نصابِ شرعی سے کم ہو جائے تو زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری