اسلام میں غیرمحرم سے محبت کرنے اور مراسم بنانے کا کیا تصور ہے؟


سوال نمبر:4894
السلام علیکم! کیا اسلام میں غیرمحرم لڑکے اور لڑکی کو پیار و محبت کی اجازت ہے؟

  • سائل: اسلام خانمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 07 ستمبر 2018ء

زمرہ: معاشرت

جواب:

اسلام دینِ فطرت ہے جو انسانوں میں موجود جذبہ محبت کا نہ صرف معترف ہے بلکہ اس جذبے کی تسکین کے لیے تعلقات، انس، محبت، دوستی اور رشتوں کی پاکیزہ و شفاف بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی بنیاد خاندانی نظام ہے، اور خاندانی نظام کا قیام، اس کی پائیداری اور تسلسل‘ باہمی الفت و محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے اسلام ان تمام افراد سے محبت اور احترام کا تعلق قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے جن کے ساتھ قرابت (خونی رشتہ)، رضاعت (دودھ شریک) یا مصاہرت (سسرالی رشتہ) کی وجہ سے نکاح کرنا حرام ہو۔ یہ رشتے‘ محرم رشتے کہلاتے ہیں۔ اگر مرد و عورت کے مابین قرابت، رضاعت یا مصاہرت کا کوئی رشتہ نہ ہو تو اسلام انہیں ایک دوسرے کے لیے نامَحرَم یا غیرمَحرَم قرار دیتا ہے

اسلام غیرمحرم لڑکے اور لڑکی کے درمیان نکاح کے علاوہ محبت کا کوئی تصور قبول نہیں کرتا۔ اسلام کے طرزِ معاشرت میں بوقتِ ضرورت غیر محرم سے بات کرنے میں بھی انتہائی محتاط انداز اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo

اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔

الاحزاب، 33: 32

اگرچہ اس آیت مبارکہ میں ازواج مطہرات کو مخاطب کیا گیا ہے مگر اس کا پیغام قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کے لیے ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے ہوئے بھی نرم لہجہ اختیار نہ کیا جائے مبادا کہ نرم لہجہ اپنانے کو اشارہ و کنایہ ہی نہ سمجھ لیا جائے اور مخاطب اپنے دل میں کوئی جذبات پیدا کر لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنہائی میں غیر محرم عورت کے پاس جانے اور اس سے ضروری بات چیت سے بھی منع کیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَلِجُوا عَلَى المُغِيبَاتِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَى الدَّمِ، قُلْنَا: وَمِنْكَ؟ قَالَ: وَمِنِّي، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمُ.

جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 309، رقم: 14364، مؤسسة قرطبة مصر
  2. ترمذي، السنن، كتاب الرضاع، باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات، 3: 475، رقم: 1172، دار احياء التراث العربي بيروت

حدیث مبارکہ میں شیطان کا خون کی طرح دوڑنا، محاورتاً بولا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب نامحرم عورت اور مرد تنہائی میں ہوتے ہیں تو جذبات ابھرتے ہیں اور شہوت جوش مارتی ہے جو برائی کی طرف مائل کرتی ہے۔ اسی طرح اگر غیرمحرم لڑکا اور لڑکی پریم پتر کریں، پیار و محبت کی باتیں کریں‘ تو قوی امکان ہے کہ وہ برائی پر آمادہ ہو جائیں گے۔ ایک اور حدیث مبارکہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَارَسُولَ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ.

اپنے آپ کو تنہا (نامحرم) عورتوں کے پاس جانے سے بچاؤ۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول ﷲ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب النكاح، باب لا يخلون رجل بامرأة إلا ذو محرم والدخول على المغيبة، 5: 2005، رقم: 4934، دار ابن کثير اليمامة بيروت
  2. مسلم، الصحيح، كتاب السلام، باب تحريم الخلوة بالأجنبية والدخول عليها، 4: 1711، رقم: 2172، دار احياء التراث العربي بيروت

اس حدیث مبارکہ میں صرف دیور نہیں بلکہ تمام نامحرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھو پھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔ ایک حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ. فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً وَاكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا. قَالَ: ارْجِعْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ.

تنہائی میں کوئی شخص کسی عورت کے پاس نہ جائے مگر اس کے محرم کے ساتھ۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی یارسول ﷲ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور (میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے جا رہا ہوں کیونکہ) میرا نام فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (غزوہ میں جانے کی بجائے) واپس جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

  1. بخاري، الصحيح، كتاب النكاح، 5 باب لا يخلون رجل بامرأة إلا ذو محرم والدخول على المغيبة: 2005، رقم: 4935
  2. مسلم، الصحيح، كتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم إلى حج وغيره، 2: 978، رقم: 1341

غیرمحرم لڑکوں اور لڑکیوں کا مراسم استوار کرنا اور چھپ کر ملاقاتیں کرنا حرام ہے کیونکہ یہی ملاقاتیں زنا کا سبب بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کا سدّباب کرنے کے لیے اس طرح کے تمام راستوں کو روکا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلاً.

اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے۔

بني اسرائيل، 17: 32

درج بالا دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے غیرمحرم سے تعلق و آشنائی اور الفت و محبت کی بنیاد نکاح کو بنایا ہے۔ نکاح کے بغیر کسی غیرمحرم سے دوستی، محبت اور تعلق فعلِ حرام ہے اور منع ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری