جملہ انشائیہ اور جملہ خبریہ میں کیا فرق ہوتا ہے؟


سوال نمبر:4769
السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں علمائے نحو مسئلہ ذیل میں کہ ’واللہ لاضربن زیداً‘ (اللہ کی قسم میں زید کو ضرور مارونگا) اور ’انا اذھب الیٰ بمبئی‘ (میں بمبئی جاؤں گا)۔ پہلا جملہ انشائیہ ہے اور دوسرا خبریہ ہے۔ یہاں اعتراض یہ ہے کہ پہلے جملے میں قائل قسم کھارہا ہے یقین دلارہاہے کہ میں زید کو ضرور مارونگا، یہ ایک خبر ہے کہ وہ مارےگا۔ اسی طرح ’میں بمبئی جاؤں گا‘ اس میں بھی خبر مل رہی ہے، یہ جملہ خبریہ اور پہلا جملہ انشائیہ کیوں ہے؟ حالانکہ اس میں بھی تو خبر مل رہی ہے۔ اگر قسم کی وجہ سے ہے تو قسم کی وجہ سے کیوں ہے؟ قسم میں تو زیادہ یقین بھی ہے اور خبر بھی مل رہی ہے۔ جملہ انشائیہ وہ ہے جس کے قائل کو سچا یا جھوٹا نہ کہا جاسکے۔ کیا اس پر کوئی عقلی دلیل بھی ہے؟ تسلی بخش جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔

  • سائل: محمد مدثر رضویمقام: راجکوٹ، ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 26 مارچ 2018ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

اَنشاء یُنشی اِنشاءً کا معنیٰ ہے عدم سے وجود میں لانا۔ جب متکلم کے کلام سے کوئی ایسی شے وجود میں آئے جو پہلے موجود نہ ہو تو کلام جملہ انشائیہ کہلاتا ہے۔ جملہ خبریہ میں مخبر عنہ کا وجود خبر سے پہلے بھی موجود ہوتا ہے۔

ذیل میں آپ کے دریافت کردہ جملوں کی وضاحت کی جا رہی ہے:

’اَنا اَذھب الیٰ بمبئی‘ (میں بمبئی جاؤں گا) جملہ اسمیہ خبریہ ہے۔ اگر متکلم بمبئی گیا تو خبر سچی ہو گی اور نہ گیا تو خبر جھوٹی ہو گی۔ لیکن ان دو باتوں کے علاوہ کوئی تیسری صورت وجود میں نہیں آئے گی۔

’واللہ لاضربن زیداً‘ (اللہ کی قسم! میں زید کو ماروں گا) میں ’لاضربن زیداً‘ جملہ خبریہ تھا جس پر متکلم نے قسم داخل کر کے اپنے کلام کو پختہ کر لیا تو یہ جملہ انشائیہ بن گیا۔ اب اگر وہ نہیں مارے گا تو اسے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ یہاں قسم کا کفارہ ایک نئی چیز ہے جو متکلم کے کلام سے پہلے اس پر لازم نہیں تھی۔ اس لیے یہ جملہ انشائیہ ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری