جواب:
اَنشاء یُنشی اِنشاءً کا معنیٰ ہے عدم سے وجود میں لانا۔ جب متکلم کے کلام سے کوئی ایسی شے وجود میں آئے جو پہلے موجود نہ ہو تو کلام جملہ انشائیہ کہلاتا ہے۔ جملہ خبریہ میں مخبر عنہ کا وجود خبر سے پہلے بھی موجود ہوتا ہے۔
ذیل میں آپ کے دریافت کردہ جملوں کی وضاحت کی جا رہی ہے:
’اَنا اَذھب الیٰ بمبئی‘ (میں بمبئی جاؤں گا) جملہ اسمیہ خبریہ ہے۔ اگر متکلم بمبئی گیا تو خبر سچی ہو گی اور نہ گیا تو خبر جھوٹی ہو گی۔ لیکن ان دو باتوں کے علاوہ کوئی تیسری صورت وجود میں نہیں آئے گی۔
’واللہ لاضربن زیداً‘ (اللہ کی قسم! میں زید کو ماروں گا) میں ’لاضربن زیداً‘ جملہ خبریہ تھا جس پر متکلم نے قسم داخل کر کے اپنے کلام کو پختہ کر لیا تو یہ جملہ انشائیہ بن گیا۔ اب اگر وہ نہیں مارے گا تو اسے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔ یہاں قسم کا کفارہ ایک نئی چیز ہے جو متکلم کے کلام سے پہلے اس پر لازم نہیں تھی۔ اس لیے یہ جملہ انشائیہ ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔