تقدیر و تدبیر میں راہِ اعتدال کیا ہے؟


سوال نمبر:4751
السلام علیکم مفتی صاحب! تدبیر کیا ہے؟ تقدیر و تدبیر میں راہِ اعتدال کیا ہے؟

  • سائل: آفتاب علیمقام: گھوٹکی، سندھ
  • تاریخ اشاعت: 26 مارچ 2018ء

زمرہ: ایمان بالقدر

جواب:

تدبیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ سوچ بچار، عاقبت اندیشی، غور و فکر اور انجام بینی کے ہیں۔ اصطلاحاً اس سے مراد کسی کام کے کرنے سے پہلے اس کے نتائج پر غور و فکر کرنا تدبیر کہلاتا ہے۔

مذہبی مباحث میں عموماً تدبیر کا لفظ تقدیر کے مقابلہ میں آتا ہے۔ ایک زمانے تک تقدیر و تدبیر مباحث کا مقبول ترین موضوع رہا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو انسان کو مطلق خود مختار قرار دیتے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ امور کی انجام دہی ہمارے اختیار میں ہے‘ تقدیرِ الٰہی کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ یہ قدریہ کہلائے۔ ان کے مقابل جبریہ تھے جو انسان کو مجبورِ محض قرار دیتے۔ انِ کے نزدیک انسان کے تمام امور تقدیر الہٰی کے تحت ہیں‘ انسان خود کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ تقدیر و تدبیر کی اس بحث میں راہِ اعتدال یہ ہے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے امور کو انجام میں سعی و تدبیر کرنا مقدر کیا ہے۔ انسان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ امورِ دنیا کی انجام دہی کے لیے اپنی عقل اور تجربے کی روشنی میں تدابیر اختیار کرے۔ لیکن ہر تدبیر کی کامیابی اللہ تعالیٰ کے اذن اور حکمت کی مرہونِ منت ہے۔ انسان تدبیر کا مکلف ہے، لیکن اس کا توکل اپنی تدبیر کی بجائے خدا پر ہونا چاہیے۔ اس کی وضاحت سیدنا یعقوب علیہ السلام کی اُس نصیحت سے ہوتی ہے جو انہوں نے مصر روانہ ہونے والے بیٹوں کو کی تھی۔ انہوں نے کہا:

يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ. وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ.

اے میرے بیٹو! (شہر میں) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے (تقسیم ہو کر) داخل ہونا، اور میں تمہیں اﷲ (کے اَمر) سے کچھ نہیں بچا سکتا کہ حکم (تقدیر) صرف اﷲ ہی کے لئے ہے۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اور جب وہ (مصر میں) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، وہ (حکم) انہیں اﷲ (کی تقدیر) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب (علیہ السلام) کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا، اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا، تمہیں کیا خبر!) بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے۔

يُوْسُف، 12: 67-68

سیدنا یعقوب علیہ السلام تدبیر کے اختیار کر رہے ہیں مگر ساتھ ہی تقدیر الٰہی پر بھروسہ بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تدبیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اسے کائنات کی اسکیم کا حصہ یعنی تقدیر قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابوخزامہ کے والد (یعمر) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا:

یا رسول اﷲ! أرأیت رقی نسترقیها و دواء نتداوی به و تقاة نتقیها؟ هل ترد من قدر اﷲ شیئا؟ قال: هی من قدر اﷲ.

یا رسول اللہ، یہ تعویز جو ہم استعمال کرتے ہیں، یہ دوا دارو جس سے ہم علاج کرتے ہیں اوریہ حفاظتی تدابیر جنھیں ہم اپنی حفاظت کے لیے اختیار کرتے ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آپ کے خیال میں یہ تقدیر کو کچھ بھی ٹال سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا: یہ بھی تقدیرِ الٰہی ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری