اسلام میں فتویٰ کی کیا حیثیت ہے؟


سوال نمبر:4604
السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کہ فتویٰ‌ کے لغوی و شرعی معنیٰ‌ کیا ہیں؟ اسلام میں فتویٰ کے اہمیت کیا ہے؟ کیا اسلام ہر ایک کے فتویٰ‌ کو ماننے کا حکم دیتا ہے؟ اس کی بتداء کب ہوئی؟

  • سائل: محمد توقیرمقام: پیران کلیار، رورکی، ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 02 مارچ 2019ء

زمرہ: فقہ اور اصول فقہ

جواب:

فتویٰ لغت میں اسمِ مصدر ’اِفْتَاءَ‘ کے معنیٰ میں ہے اور اس کی جمع ’فَتَاوَیٰ‘ اور ’فتاوِی‘ ہے۔ ’اَفْتَیْتَهُ فَتْوَیٰ وَ فُتْیاً‘ یعنی جب تم اسے مسئلے کے بارے میں جواب دو۔ فتویٰ مشکل احکام کو واضح کرنے کا نام ہے، جیسے کہتے ہیں ’تَفَاتَوْا اَلیٰ فَلاَنِ‘ یعنی اس کے پاس معاملہ لے گئے یا اس کے پاس فتویٰ دریافت کرنے کے لیے گئے۔

  1. ابنِ منظور، لسان العرب، 15: 147، بیروت، دار صادر
  2. الازهری، تهذیب اللغة، 14: 234، بیروت، دار احیاء التراث العربی

ابراہیم مصطفیٰ اپنی لغت کی کتاب المعجم الوسیط میں لکھتے ہیں:

أَفْتَى: فِيْ الْمَسْأَلَةِ أَبَانَ الْحُكْمَ فِيْهَا.

افتاء: یعنی کسی مسئلہ میں اس کا حکم ظاہر کرنا۔

اَلْفَتْوَى: اَلْجَوَابُ عَمَّا يُشْكِلُ مِنَ الْمَسَائِلِ الشَّرْعِيَّةِ أَوِ الْقَانُوْنِيَّةِ.

فتویٰ سے مراد وہ جواب ہے جو کسی مشکل، شرعی یا قانونی مسئلہ میں دیا جاتا ہے۔

إبراهيم مصطفى، المعجم الوسيط، 2: 673، دار الدعوة

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ.

لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں۔

النساء، 4: 176

اور ایک مقام پر فرمایا ہے:

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ.

لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں۔

البقرة، 2: 217

قرآنِ مجید نے خوابوں کی تعبیر بتانے کو بھی فتویٰ کے حکم میں لیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الْمَلأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِن كُنتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ.

اے درباریو! مجھے میرے خواب کا جواب بیان کرو اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہو۔

يُوْسُف، 12: 43

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے واضح ہوتا ہے کہ فتویٰ شرعی مفہوم میں سوالات کا دلائلِ شرعی کی روشنی میں جواب دینے کا نام ہے۔ یہ سوالات قدیم و جدید سب کو شامل ہے اور فتویٰ زبانی و تحریری دونوں صورتوں میں ہوسکتا ہے۔

فتویٰ کی ابتداء اور ضرورت و اہمیت

فتویٰ کی تاریخ اُتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان خود ہے۔ ہر نبی اپنی اپنی امت کو ان کے شرعی سوالات کے جوابات دیتا رہا ہے۔ انبیاء کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اختتام پذیر ہوا تو فتویٰ کی ذمہ داری راسخ العلم افراد کے سپرد ہو گئی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ.

اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ سے پہلے (بھی) مَردوں کو ہی (رسول بنا کر) بھیجا تھا ہم ان کی طرف وحی بھیجا کرتے تھے (لوگو!) تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تم (خود) نہ جانتے ہو۔

الْأَنْبِيَآء، 21: 7

ایک طرف عامۃ الناس کو اہل علم سے دریافت کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو دوسری طرف علماء کو علم کی بات چھپانے پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أَلْجَمَهُ اللَّهُ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

جس سے کوئی علمی بات پوچھی گئی اور اس نے چھپائی تو قیامت کے روز اﷲ تعالیٰ اسے آگ کی لگام لگائے گا۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 344، رقم: 8514، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. أبو داود، السنن، كتاب الأقضية، باب كراهية منع العلم، 3: 321، رقم: 3658، بيروت: دار الفكر

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی سنن ترمذی میں یہ روایت چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یوں نقل کی گئی ہے:

مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ القِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ.

جس شخص سے کوئی علم کی بات پوچھی گئی اور اس نے جاننے کے باوجود اسے چھپا لیا قیامت کے دن اسے آگ کی لگام دی جائے گی۔

ترمذی، السنن، كتاب العلم عن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم، باب ما جاء في كتمان العلم، 5: 29، رقم: 2649، بيروت: دار إحياء التراث العربي

یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی زندگی میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دوسرے علاقوں میں بھیجا تو اس بات کا اہتمام کیا کہ وہاں جا کر وہ لوگوں کے شرعی مسائل کا حل کریں۔ جیسے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا تو ارشاد فرمایا: جب تمہارے سامنے مقدمہ پیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ آپ رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اللہ کی کتاب میں بھی نہ پاؤ؟ آپ رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں نہ پاؤ اور نہ ہی اللہ کی کتاب میں تو تب؟ آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:

أَجْتَهِدُ رَأْيِي وَلَا آلُو. فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم صَدْرَهُ وَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ.

میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوتاہی نہ کروں گا۔ تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے کو تھپکا کر فرمایا: خدا کا شکر ہے جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھیجے ہوئے شخص کو اس چیز کی توفیق بخشی جو اللہ کے رسول کو خوش کر دے۔

أبو داود، السنن، كتاب الأقضية، باب اجتهاد الرأي في القضاء، 3: 303، رقم: 3592

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ ذمہ داری سنبھالی تو ایک بڑی تعداد نے افتاء کے منصب پر اپنے فرائض سرنجام دیئے۔ علامہ ابن لقیم رحمہ اللہ "اعلام الموعين "میں لکھتے ہیں:

وَاَلَّذِينَ حُفِظَتْ عَنْهُمْ الْفَتْوَى مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةٌ وَنَيِّفٌ وَثَلَاثُونَ نَفْسًا.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جن اصحاب سے فتاوی منقول ومحفوظ ہیں، ان کی تعداد ایک سو تیس (130) سے کچھ زائد ہے۔

ابن القيم، إعلام الموقعين، 1: 12، بيروت: دار الجيل

  اس سے معلوم ہوا کہ صدرِ اسلام سے لیکر دورِ حاضر تک فتویٰ رہنمائی کا ذریعہ ہے اور قیامت تک رہے گا۔ اس لیے اہل علم و عرفان اور باعمل لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم سمجھ کر اس ذمہ داری پر براجمان ہونا چاہیے۔

کیا ہر فتویٰ پر عمل کیا جائے؟

ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ قطعی حکم ملا ہے کہ اپنے قول و عمل (جس کو وہ انجام دینا چاہتا ہے) کے متعلق اگر اسے نہیں معلوم کہ خدائی قانون (شریعت) کہاں تک اس کی اجازت دیتا ہے اور اجازت کی صورت میں اس کے کیا حدود و شرائط ہیں تو اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے اس کے لیے لازم ہے کہ قانونِ الٰہی کے ان واقف کاروں و تجربہ کاروں سے رجوع کرے جن کومسلم سماج میں اعتماد حاصل ہے، ان سے اپنے مسئلہ کی نوعیت بتلاکر حکمِ شرعی معلوم کرلے۔ قرآن کریم میں اولو الامر کی طرف مراجعت اور ان کی اطاعت کو واجب اور ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ایک تفسیر کے مطابق اولو الامر سے مراد حضرات علماء و فقہاء ہیں۔اس لیے عام مسلمان پر ضروری ہے کہ جب کسی معاملہ میں دینی رہنمائی مطلوب ہوتو حکمِ خداوندی معلوم کرنے کے لیے مفتیانِ کرام کی طرف رجوع کریں؛ جیسا کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم درپیش دینی معاملات میں حضرت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے اور جس طرح حضرات صحابہ کے زمانہ میں دیگر صحابہ و تابعین فقہا صحابہ سے دینی مسائل میں رہ نمائی حاصل کرتے تھے۔

فتوی دینے کا منصب بہت اہم اور نازک ہے۔ فقہائے کرام اور مفتیان عظام کی وہ جماعت جنھوں نے خود کو استنباطِ احکام، استخراجِ مسائل کے لیے مختص کیا اور حلال و حرام کو معلوم کرنے کے لیے قواعد و ضوابط مرتب کیے ، وہ انبیائے کرام کے حقیقی وارث ہیں۔ فتویٰ نویسی کے اصول و ضوابط ہیں۔ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ راسخ العلم ہونے کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی میں متقی، پرہیزگار اور شریعت کا پابند ہو۔ جو کچھ بھی فتویٰ دے اس میں پوری دیانت ملحوظ رکھے، بحیثیت نائبِ رسول حکم شرعی کی نشاندہی کرے۔ مفتی فتویٰ صادر کرکے کوئی نیا قانون نہیں بناتا، نہ وہ اس کی ذاتی رائے ہوتی ہے؛ بلکہ وہ تو صرف قانون اسلامی کی مقرر دفعات کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل تجویز کرتا ہے۔ اگر اس کا مجوزہ حل قرآن و حدیث کے دلائل پر مبنی ہے تو فتویٰ مستند ہے اور اس پر عمل کرنا دراصل قرآن و حدیث پر ہی عمل ہے۔ اگر کوئی شخص مستند فتوے پر طعن کرتا ہے تو درحقیقت وہ قانونِ اسلام کو نشانہ بنارہا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری