کیا مسجد کی چھت پر امام و خطیب کی رہائشگاہ بنانا جائز ہے؟


سوال نمبر:4571
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکتہ! سوال: مفتی صاحب ہماری مسجد کے اوپر قاری صاحب کی رہائش اس طرح بنی ہے کہ ان کہ کمرے کا آدھا حصہ وضو خانے پر اور آدھا حصہ مسجد کی صفوں میں آتا ہے۔ اور قاری صاحب کے کمرے میں کیبل بھی لگی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے کمیٹی ممبران میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ کہتے ہیں ہم نے پہلے نیت کی تھی رہائش بنانے کی۔ میرا سوال یہ ہے قاری صاحب کا فیملی کے ساتھ وہاں رہنا اور کیبل لگوانا درست ہے یا نہیں؟ اور اوپر والا حصہ مسجد ہے یا نہیں؟ امید ہے کہ آپ میری رہنمائی ضرور فرمائیں گے۔ جزاک اللہ

  • سائل: محمد نوید قادریمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 26 دسمبر 2017ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

امام و خطیب کی رہائش گاہ مصالحِ مسجد میں سے ہے، اس لیے مسجد کے نیچے یا اوپر امام و خطیب کی رہائش گاہ بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں:

لَوْ بَنَی بَیْتًا عَلَی سَطْحِ الْمَسْجِدِ لِسُکْنَی الْإِمَامِ فإِنَّهُ لَا یَضُرُّ فِي کَوْنِهِ مَسْجِداً لِأَنَّهُ مِنَ الْمَصَالِحِ.

اگر امام کی رہائش کے لیے مسجد کے اوپر گھر بنایا تو اس مسجد کی تعمیر میں کوئی خرابی نہیں ہے کیونکہ یہ مصالح (مسجد) میں سے ہے۔

ابن نجیم، البحر الرائق، 5: 271، بیروت: دار المعرفة

اور علامہ محمد بن علی المعروف علاؤالدین حصکفی فرماتے ہیں:

لَوْ بَنَی فَوْقَهُ بَیْتًا لِلْإِمَامِ لَا یَضُرُّ لِأَنَّهُ مِنْ الْمَصَالِحِ.

اگر مسجد کے اوپر امام کے لیے گھر بنایا تو خرابی نہیں ہے کیونکہ یہ مصالح مسجد میں سے ہے۔

حصکفي، الدر المختار، 4: 358، بیروت: دار الفکر

اس لیے ضرورت کے مطابق انتظامیہ نے مسجد کے تہہ خانے میں یا مسجد کے اوپر امام و خطیب کی رہاش گاہ تعمیر کی ہے تو وہ فیملی سمیت وہاں رہ سکتے ہیں۔ ٹیلیویژن اور اس طرح کی دیگر ایجادات اب انسانی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں، شاید ہی کوئی گھر ہو جو ٹیلی ویژن، موبائل یا انٹرنیٹ سے خالی ہو۔ ان چیزوں کا اچھا یا برا استعمال ان کے استعمال کنندہ پر منحصر ہے۔ اگر ٹیلی ویژن حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے یا دیگر جائز کاموں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو بلاشبہ امام صاحب کا مسجد کے اوپر بنائی گئی رہائش گاہ پر ٹیلی ویژن رکھنا بھی جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری