جواب:
حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت اُم ورقہ بنت نوفل رضی اللہ عنہا غزوہ بدر کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض گزار ہوئیں کہ یارسول اﷲ! مجھے اپنے ساتھ غزوہ میں جانے کی اجازت دیجئے کہ مریضوں کی تیمارداری کروں، شاید اﷲتعالیٰ مجھے شہادت کا درجہ عطا فرما دے۔ فرمایا کہ تم اپنے گھر میں رہو، اﷲ تعالیٰ تمہیں شہادت مرحمت فرما دے گا۔ راوی کا بیان ہے کہ اس بی بی کا نام شہیدہ پڑ گیا تھا، ان کے بارے میں مزید بتاتے ہیں کہ:
وَکَانَتْ قَدْ قَرَأَتِ الْقُرْآنَ فَاسْتَأْذَنَتْ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم أَنْ تَتَّخِذَ فِي دَارِهَا مُؤَذِّنًا فَأَذِنَ لَهَا قَالَ وَکَانَتْ قَدْ دَبَّرَتْ غُلَامًا لَهَا وَجَارِیَةً فَقَامَا إِلَیْهَا بِاللَّیْلِ فَغَمَّاهَا بِقَطِیفَةٍ لَهَا حَتَّی مَاتَتْ وَذَهَبَا فَأَصْبَحَ عُمَرُ فَقَامَ فِي النَّاسِ فَقَالَ مَنْ کَانَ عِنْدَهُ مِنْ هَذَیْنِ عِلْمٌ أَوْ مَنْ رَآهُمَا فَلْیَجِئْ بِهِمَا فَأَمَرَ بِهِمَا فَصُلِبَا فَکَانَا أَوَّلَ مَصْلُوبٍ بِالْمَدِینَةِ.
اور اس نے قرآن پڑھا ہوا تھا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے گھر مؤذن رکھنے کی اجازت مانگی جو سرکار نے دیدی۔ اس بی بی نے ایک غلام اور باندی کو مدبر بنا کر رکھا ہوا تھا جنہوں نے رات کے وقت اس کے گلے میں چادر ڈال کر گلا گھونٹ کر مار دیا اور بھاگ گئے۔ صبح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا: جس کو ان دونوں کا علم ہو یا جس نے انہیں دیکھا ہو تو انہیں پکڑ لائے۔ پھر آپ کے حکم سے ان کو سولی دی گئی اور یہ دونوں مدینہ منورہ میں پہلے مصلوب تھے۔
ایک حویلی میں مؤذن اذان دیتا تھا اور حضرت ام ورقہ بنت نوفل عورتوں کی جماعت کرواتی تھیں جبکہ ہر گھر میں نماز کے لیے الگ سے اذان دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، مسجد میں ہونے والی اذان پر عورتیں گھر میں نماز باجماعت ادا کر سکتی ہیں۔ اگر مسجد میں عورتوں کے لیے باجماعت نماز کا اہتمام ہو تو مسجد میں جا کر بھی نماز پنجگانہ ادا کر سکتی ہیں۔ لہٰذا فرداً فرداً ہر گھر میں اذان دینا درست نہیں ہے کیونکہ اذان کا مقصد لوگوں کو باجماعت نماز کے لیے مسجد میں بلانا ہے اور عورت کے بطورِ مؤذن اذان دینے کی کوئی تاریخی نظیر نہیں ملتی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔