ذاتی مفاد کے لیے کسی کی عیب جوئی کرنے کا اسلام میں‌ کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4504
سوال ہے کہ جو لوگ دفاتر میں چغلی کرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان ہوئی باتوں کو جا کر مینیجز کو بتاتے ہیں اور داد وصول کرتے ہیں تاکہ ان کے تنخواہ میں معقول اضافہ ہو اور ترقی ہو۔ معمولی سے معمولی بات ہر وقت مینیجر کو بتاتے ہیں تو معلوم کرنا کیا اسلام میں اسکی اجازت ہے؟ ایسا کرنے میں باز پرس نہیں ہے؟ ہمارے دفتر میں ایسے لوگ کامیاب ہیں۔ راہنمائی کریں اور حل بتائیں تاکہ ہم بھی ترقی کر سکیں۔

  • سائل: شاہدمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 21 نومبر 2017ء

زمرہ: رذائلِ اخلاق

جواب:

کسی شخص کی غیرموجودگی میں اس کے ذاتی عیوب کو بیان کرنا غیبت (چغلی) کہلاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ تو  آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا یَکْرَهُ قِیلَ أَفَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ قَالَ إِنْ کَانَ فِیهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ اغْتَبْتَهُ. وَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ.

غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کے اس عیب کا ذکر کرو جس کا ذکر اس کو ناپسند ہو، کہا گیا: یہ بتائیے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جس کا میں ذکر کروں تو؟ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے وہ عیب بیان کیا جو اس میں ہے تبھی تو تم نے اس کی غیبت کی ہے اور اگر وہ عیب بیان کیا ہے جو اس میں نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔

مسلم، الصحیح، 4: 2001، رقم: 2589، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

قرآن حکیم میں کسی کی غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اﷲَط اِنَّ اﷲَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌo

اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بے شک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

الحجر، 49: 12

اور حدیث مباکہ میں بھی غیبت کرنے والے کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا:

إِنَّهُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِي کَبِیرٍ أَمَّا هَذَا فَکَانَ لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ وَأَمَّا هَذَا فَکَانَ یَمْشِي بِالنَّمِیمَةِ ثُمَّ دَعَا بِعَسِیبٍ رَطْبٍ فَشَقَّهُ بِاثْنَیْنِ فَغَرَسَ عَلَی هَذَا وَاحِدًا وَعَلَی هَذَا وَاحِدًا ثُمَّ قَالَ لَعَلَّهُ یُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا.

ان دونوں مردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ عذاب کسی بڑے گناہ کے سبب نہیں دیئے جا رہے۔ ان میں یہ تو پیشاب کے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا۔ اور وہ غیبت کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اس کے دو حصے کر دیئے۔ ایک حصہ اس قبر پر اور دوسرا حصہ اُس قبر پر نصب کر دیا۔ پھر فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں شاید ان کے عذاب میں تخفیف رہے۔

  1. بخاري، الصحیح، 5: 2249، رقم: 5705، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
  2. مسلم، الصحیح، 1: 240، رقم: 292

اس لیے ذاتی مفادات کی خاطر کسی کی عیب جوئی کرنا سخت ناپسندیدہ عمل اور کبیرہ گناہ ہے‘ ایسا کرنے والا شخص عذاب کا مستحق ہے۔

مذکورہ مسئلے کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ اگر دفتر میں کسی شخص کی ڈیوٹی ہو کہ اس نے ہر ملازم کے کام کی نوعیت دیکھنی ہے اور اس کی رپورٹ مینجر تک پہنچانی ہے۔ تو ایسی صورت میں صحیح کام نہ کرنے والوں یا ادارے کو نقصان پہنچانے والوں کی رپورٹ مینجر تک پہنچانا گناہ نہیں ہے۔ اسی طرح کسی کرپٹ، چور، خائن ، قاتل کا عیب بیان کرنا یا جب کسی شخص کے ذاتی عیب سے ملک و قوم یا معاشرے کو نقصان کا ندیشہ ہو تو اس کا عیب بیان کرنا بھی برائی نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری