کیا نمازِ فجر آخری وقت میں ادا کی جاسکتی ہے؟


سوال نمبر:4486
میں نے ایک کلینڈر نماز فجر کا وقت دیکھا تو وہ 6:15 تھا، میں نے 6:14 پر نماز ادا کر لی۔ بعد میں‌ ایک کلینڈر دیکھا جس میں‌ نماز کا وقت 6:13 لکھا تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میری اس دن کی نماز ادا ہوگئی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں‌ نمازِ فجر ادا کرنے کے جائے تو کیا وہ گھر آ کر قضا نماز پڑھ سکتا ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہم جماعت سے لیٹ ہو جائیں تو مسجد میں فجر کی دوسری جماعت نہیں‌ کرواتے، ایسا کرنا کتنا درست ہے؟

  • سائل: حافظ فرقان اعوانمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 14 نومبر 2017ء

زمرہ: نماز  |  نماز فجر

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ طلوع آفتاب (سورج نکلتے وقت)، وقت استواء (جب سورج بالکل درمیان میں ہوتا ہے) اور غروب آفتاب (سورج غروب ہوتے وقت) کوئی بھی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَيٍّ عَنْ أَبِیهِ قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ رضی الله عنه یَقُول: ثَـلَاثُ سَاعَاتٍ کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِیهِنَّ أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِیهِنَّ مَوْتَانَا حِینَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّی تَرْتَفِعَ وَحِینَ یَقُومُ قَائِمُ الظَّهِیرَةِ حَتَّی تَمِیلَ الشَّمْسُ وَحِینَ تَضَیَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّی تَغْرُبَ.

حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے اور اموات کو دفن کرنے سے روکتے تھے، ایک طلوع آفتاب کے وقت جب تک وہ بلند نہ ہو جائے، دوسرے ٹھیک دوپہر کے وقت تاوقتیکہ زوال نہ ہو جائے، تیسرے غروب آفتاب کے وقت تاوقتیکہ وہ مکمل غروب نہ ہو جائے۔

مسلم، الصحیح، 1: 568، رقم: 831، دار احیاء التراث العربي بیروت

اور ایک حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم إِذَا بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّی تَبْرُزَ وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّی تَغِیبَ.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ ظاہر ہو جائے تو نماز کو اس وقت تک موقوف رکھو جب تک سورج اچھی طرح ظاہر نہ ہو جائے اور جب سورج کا کنارہ غائب ہو جائے تو نماز کو اس وقت تک موقوف رکھو جب تک سورج مکمل غائب نہ ہو جائے۔

  1. بخاري، الصحیح، 1: 212، رقم: 558، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامۃ
  2. مسلم، الصحیح، 1: 568، رقم: 82۹

لہٰذا طلوع آفتاب شروع ہونے سے پہلے نماز فجر مکمل ہو جائے تو نماز ادا ہو جاتی ہے، اگر سورج کا کنارہ ظاہر ہو جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے اور اس کا لوٹانا ضروری ہوتا ہے۔ آپ دیکھ لیں جو کلنڈر مستند اور رجسٹرڈ ادارے کی طرف سے جدید بنیادوں پر شائع کیا گیا ہے، اُس کے مطابق نماز فجر طلوع آفتاب سے پہلے ختم ہو گئی تھی تو نماز ادا ہو گئی ہے۔ اگر طلوع آفتاب شروع ہو گیا تھا تو نماز قضاء کر لیں، یہ بہتر ہے۔

2۔ نماز فجر اور عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّی تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغِیبَ الشَّمْسُ.

صبح کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے۔

بخاري، الصحیح، 1: 212، رقم: 561

ایک اور روایت میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: نَهَی رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم عَنْ صَلَاتَیْنِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو نمازوں سے منع فرمایا یعنی فجر کے بعد یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور عصر کے بعد یہاں کہ سورج غروب ہو جائے۔

بخاري، الصحیح، 1: 213، رقم: 563

حتیٰ کہ نماز فجر کی سنتیں بھی رہ جائیں تو سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھنے کا حکم ہے:

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : مَنْ لَمْ یُصَلِّ رَکْعَتِي الْفَجْرِ فَلْیُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو فجر کی دو سنتیں ادا نہ کر سکے، وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھ سکتا ہے۔

  1. ترمذي، السنن، 2: 287، رقم: 423، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
  2. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1: 450، رقم: 1153، بیروت: دار الکتب العلمیۃ

فقہاء کرام نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے کہ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک فجر کی سنتوں کے علاوہ کوئی بھی نفلی نماز جائز نہیں ہے ہاں اگر فوت شدہ نماز باقی ہو تو قضاء کر سکتے ہیں۔ امام قدوری فرماتے ہیں:

یُکْرَهُ أَنْ یَتَنَفَّلَ بَعْدَ صَلَاةِ الْفجْرِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعد صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ؛ وَلَا بَأْسَ بِأَنْ یُصَلِّيَ فِي هٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ الْفَوَائِتِ، وَیَسْجُدَ لِلتِّلاَوَةِ، وَیُصَلِّی عَلَی الْجَنَازَةِ، وَلَا یُصَلِّي رَکعَتَي الطَّوَافِ. وَیُکْرَهُ أَنْ یَتَنَفَّلَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ بِأَکْثَرَ مِنْ رَکْعَتَيِ الْفَجْرِ وَلَا یَتَنَفَّلُ قَبْلَ الْمَغْرِبِ.

نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ اور ان دونوں اوقات میں فوت شدہ نمازیں قضاء کرنے، سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور طواف کی دو رکعت ادا نہ کرے۔ اور صبح صادق کے بعد سنتِ فجر سے زائد نوافل پڑھنا مکروہ ہے اور نہ ہی مغرب سے پہلے نفل پڑھے۔

أحمد بن محمد، مختصر القدوري: 84۔ 85، بیروت، لبنان: مؤسسة الریان

لہٰذا نماز فجر کے بعد طلوع افتاب تک فوت شدہ فرائض اور وتر کی قضاء کرنا جائز ہے۔لیکن طلوعِ فجر سے لے کر سورج بلند ہونے تک فجر کی دو سنت کے علاوہ نوافل ادا کرنا جائز نہیں ہے۔

3۔ اگر کسی دن جماعت کے بعد آنے والوں کی تعداد زیادہ ہو تو جماعتِ ثانی کروائی جا سکتی ہے، لیکن اس کو معمول نہیں بنانا چاہیے۔ اس سے دین کی روح ’اجتماعیت‘ کے ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری