کیا وارثین کی زیادتی کا وبال مورثین پر بھی ہوتا ہے؟


سوال نمبر:4469

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ ! مفتی صاحب میں وراثت کے متعلق ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں پر تین بھائی تھے جو کہ تینوں وفات پا چکے ہیں۔ ان کی ساری زمین ورثاء کے درمیان تقریبا تیس سال پہلے تقسیم ہو گئی اور سب کے حصے طے ہو گئے۔ کاغذات میں بھی قانونی طور پر سب کے حصے تقسیم ہو گئے۔ اب سب لوگ ان طے شدہ حصوں پر متفق ہیں۔

اب مسئلہ آپس میں زمین کے قبضہ کا آیا تو اس وقت سب نے اپنے اپنے حصہ پر قبضہ کر لیا اور سب نے اپنی اپنی زمین مختلف لوگوں کو ٹھیکہ پر دے دی۔ جو ابھی تک اسی طرح ٹھیکہ پر کاشت ہو رہی ہے۔ اور پٹوار خانہ میں بھی اسی قبضہ کے اعتبار سے ہر فصل کی کاشت پر اندراج ہو رہا ہے۔ لیکن جب جمع بندی لینڈ ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے لیں تو وہاں پر ابھی تک مشترکہ کھاتہ کی جمع بندی ملتی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ان میں سے ایک بھائی کے ورثاء نے کہا کہ ہماری زمین کم ہے۔ اب جب اس کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ان کے والد صاحب نے وفات سے پہلے جن کی وفات تقریبا 1971ء میں ہوئی لوگوں کو اشٹام پر زمین فروخت کی ہوئی ہے اور لوگوں نے اس زمین میں گھر تعمیر کیے ہوئے ہیں۔ لیکن رجسٹری ابھی تک ان بھائی کے ورثاء کے نام پر موجود ہے۔ اور کچھ جگہ ایسی ہے کہ جہاں پر لوگوں نے ناجائز گھر بنا کر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اب یہ جگہ کیونکہ شہر کی حدود میں آگئی ہے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہو چکی ہے آج سے تیس سال پہلے اس کی کوئی خاص قیمت نہیں تھی اور یہ عام سا دیہات تھا۔

الحمدللّٰہ ان بھائیوں کے ورثاء کے اس زمین کے علاوہ کافی کاروبار ہیں جو کہ ماشاءاللہ بہت اچھے چل رہے ہیں اس لیے انہوں نے پہلے اس زمین کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اب اس بھائی کے ورثاء نے عدالت میں ان سب لوگوں پر جو ان گھروں میں رہ رہے ہیں اور دوسرے بھائیوں کے ورثاء پر عدالت میں دعوی دائر کر دیا جو کہ کچھ عرصہ پہلے عدالت نے خارج کر دیا۔

1- اب ان میں سے ایک دوسرے بھائی کے وارث وہاں پر اپنے حصہ کی زمین میں سے کچھ حصہ پر ایک ٹاؤن بنانا چاہتے ہیں جو کہ ان کے قبضہ میں ہے اور اس زمین کا ٹھیکہ بھی ان کو مل رہا ہے اور پٹوار کے ریکارڈ کے مطابق بھی یہ ان ہی کا حصہ ہے۔

لیکن وہ بھائی کے ورثاء کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے ساتھ مل کر ان لوگوں سے جو ناجائز بیٹھے ہیں قبضہ چھڑاؤ یا اس زمین کو جو کہ تقریبا آٹھ ایکڑ کے قریب ہے آپس میں تقسیم کرو۔ پھر ہم آپ کو ٹاؤن بنانے دیں گےورنہ عدالت سے سٹے آرڈر لیکر کام بند کروا دیں گے۔ اب کیا ان کا یہ عمل کرنا درست ہے۔ ؟

2- اب جن لوگوں کے پاس اشٹام موجود ہیں لیکن رجسٹری نہیں جس کیوجہ سے اگر وہ زمین فروخت کرتے ہیں تو آدھی قیمت پر فروخت ہوتی ہے۔ کیا ظلم نہیں ہے۔؟

3- کیا اس کا وبال ورثاء پر ہے یا وہ جو فوت ہو گئے ہیں ان کو بھی اس کی سزا مل رہی ہو گی۔

برائے مہربانی جلد اس کا جواب عنایت فرما دیجیے۔

جزاک اللہ و السلام

  • سائل: شاہد اقبالمقام: رحیم یار خان، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 27 اکتوبر 2017ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. تمام ورثاء کو پہلی فرصت میں اپنا حصہ ایکڑ نمبر کے اعتبار سے اپنے نام ٹرانسفر کروانا چاہیے تاکہ ہر کوئی بآسانی اپنی زمین استعمال میں لاسکے یا فروخت کر سکے اور کوئی حصے دار دوسرے کے حصے میں مداخلت نہ کرے۔ ہر وارث اپنے حصے کا حقدار ہے کسی دوسرے کے حصے پر ہونے والے قبضے کا ذمہ دار نہیں۔ اگر زمین ابھی تک مشترکہ ہے تو تمام حصے دار مل کر قبضہ چھڑائیں گے، لیکن اگر زمین بٹ چکی ہے تو کوئی حصے دار اپنے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کسی دوسرے حصے دار کا نقصان نہیں کر سکتا۔ اس صورت میں ٹاؤن بنانے میں رکاوٹ ڈالنے والے ناجائز کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
  2. اگر خریداروں نے اُس وقت مارکیٹ ریٹ کے مطابق پوری قیمت ادا کر کے زمین خریدی تھی تو ان سے زمین واپس لینا کسی طرح درست نہیں۔ آپ کے بقول خریداروں کے پاس رجسٹری نہیں فقط اشٹام ہے، تب ان سے واپس نہیں لی جاسکتی کیونکہ اشٹام بھی بہرحال ایک قانونی دستاویز ہے۔ اگر فروخت کنندگان یا ان کے ورثاء فروخت شدہ زمین واپس لینا چاہتے ہیں تو موجودہ ریٹ کے مطابق ان سے واپس لے سکتے ہیں۔
  3. جن لوگوں نے 1971 میں باقاعدہ زمین خرید کر اس پر مکان بنائے اور اس کا ان کے پاس کوئی قانونی ثبوت بھی ہے تو ان کو ناجائز قابض قرار دینا گناہ ہے۔ اگر فروخت کنندگان کے ورثاء خریداروں سے زیادتی کریں گے تو وہی خدا کے حضور جوابدہ ہیں، مورثین پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری