جواب:
زکوٰۃ اور فطرانہ دونوں ہی صدقاتِ واجبہ میں سے ہیں اور ان کے مصارف بھی ایک جیسے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِط فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌo
بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
التوبه، 9: 60
اس آیت مبارکہ میں {وَالْغَارِمِيْنَ} سے واضح ہے کہ قرضداروں کے بوجھ اتارنے کے لئے اُن کو زکوٰۃ دینا برحق ہے، لہٰذا مقروض کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
اور مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں ہی اگلا مصرف {وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ} ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے یعنی بہت سے نیکی کے کام اس مصرف کے تحت زکوٰۃ کی رقم سے کئے جا سکتے ہیں۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُهُ تَعَالَی: {وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ} عِبَارَةً عَنْ جَمِيْعِ الْقُرَبِ فَيَدْخُلُ فِيْهِ کُلُّ مَنْ سَعَی فِي طَاعَةِ اﷲِ تَعَالَی، وَسَبِيْلِ الْخَيْرَاتِ إِذَا کَانَ مُحْتَاجاً.
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’وفی سبیل اﷲ‘‘ یہ سارے نیک کام کی تعبیر ہے، اس لئے اس میں ہر وشخص داخل ہو گا جو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور اچھے کاموں میں کوشاں ہو، جب کہ وہ محتاج ہو۔
لہٰذا فی سبیل اﷲ کی مد میں زکوٰۃ کی رقم عیدگاہ پر بھی خرچ کی جا سکتی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔